اللہ پاک کے پیارے نبی ، محمدِ عَرَبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : طَلَبُ کَسْبِ الۡحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الۡفَرِیْضَۃِیعنی حلال کمائی کی تلاش ایک فرض کے بعد دوسرا فرض ہے۔ ([i])
پیارے اسلامی بھائیو! حلال روزی کمانےکی دینِ اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ قراٰنِ کریم اور احادیثِ مبارَکہ میں کئی مقامات پر رزقِ حلال کھانے اور حرام سے بچنے کا حکم اور ترغیب ہے۔ اُوپر بیان کی گئی حدیثِ پاک کی شرح میں حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تلاش سے مراد جستجو کرنا اور حاصل کرنا ہے مزید یہ کہ عباداتِ فرضیہ کے بعد یہ فرض ہے کیونکہ اس پر بہت سے فرائض موقوف ہیں ، خیال رہے یہ حکم سب کے لئے نہیں ، صرف ان کے لئے ہے جن کا خرچ دوسروں کے ذمّہ نہ ہو بلکہ اپنے ذمّہ ہو اور اس کے پاس مال بھی نہ ہو ورنہ خود مالدار پر اور چھوٹے بچّوں پر فرض نہیں ، یہ بھی خیال رہے کہ بقدرِضرورت مَعاش کی طلب ضروری ہے ، صرف اکیلے کو اپنے لائق اور بال بچّوں والے کو ان کے لائق کمانا ضروری ہے۔ ([ii])
امام شرفُ الدّین رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ ایسا فرض ہے کہ جس کی انتہا نہیں اس لئے کہ حلال کمانا پرہیزگاری اورتقویٰ کی بنیاد ہے۔ ([iii])
پیارے اسلامی بھائیو! آج کل بہت سے ایسے افراد ملتے ہیں کہ جنہیں نماز یا کسی دوسرے فرض یا نیکی کے کام کی دعوت دی جائے تو کہتے ہیں : “ بھائی! اہلِ خانہ کیلئے حلال کمانا بھی فرض ہے “ اور یوں فرض نمازیں اور بعض تو روزے تک چھوڑ دیتے ہیں۔ اس حدیثِ پاک میں حلال کمائی کو اگرچہ فرض فرمایا گیا ہے لیکن واضح رہے کہ یہ ایسا فرض نہیں کہ اس کی وجہ سے دوسرے فرائض کو چھوڑ دیا جائے ، چنانچہ علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے الفاظ “ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الۡفَرِیْضَۃِ“ کی شرح میں فرماتے ہیں کہ حلال کمائی طلب کرنا ایسا فرض نہیں کہ جو نماز روزہ اور حج وغیرہ کی فرضیت کے برابر ہو۔ ([iv])
مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں : بَعْدَ الۡفَرِیْضَۃ فرمانے سے معلوم ہوا کہ کمائی کی فرضیت نماز روزے کی فرضیت کے مثل نہیں کہ اس کا مُنکِر کافر ہو اور تارِک فاسِق (یعنی اس کا اِنکار کرنے والا کافر نہیں اور تَرْک کرنے والا فاسق نہیں)۔ ([v])
حلال کمانے اور حلال کھانے میں مسلمان کے لئے دنیا اور آخِرت کی نَجات ہے جبکہ حرام کا لقمہ دنیا و آخِرت کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ حرام روزی کے بارے میں 2فرامینِ مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے اور عبرت حاصل کیجئے :
(1)ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور بدن گَرْد آلود ہے (یعنی اُس کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھاکر یاربّ! یاربّ! کہتا ہے (یعنی دُعا کرتا ہے) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام ، پینا حرام ، لباس حرام اور غِذا حرام پھر اُس کی دُعا کیونکر مقبول ہو! (یعنی اگر قبولِ دعا کی خواہش ہو تو کسبِ حلال اختیار کرو) ([vi])
(2)جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے ، اگر اُس کو صَدَقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لئے اُ س میں بَرَکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک بُرائی سے بُرائی کو نہیں مٹاتا ، ہاں نیکی سے بُرائی کو مٹاتا ہے ، بے شک خبیث(یعنی ناپاک) کو خبیث نہیں مٹاتا۔ ([vii])
لقمۂ حرام کی نحوست:مُکاشَفَۃُ الْقُلوب میں ہے : آدَمی کے پیٹ میں جب لقمۂ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اُس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں(یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودَگی میں) موت آ گئی تو داخِلِ جہنم ہوگا۔ ([viii])
اللہ کریم ہم سب کو حلال کمانے اور حرام سے کامِل طور پر بچنےکی توفیق نصیب فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…استاذ دورۃ الحدیث جامعۃالمدینہ اوکاڑہ
Comments