بندروں کا تاجر

ایک پہاڑی گاؤں کے اِردگِرد بہت زیادہ بندر (Monkeys) رہتے تھے۔ جانوروں کا ایک تاجِر (Trader) وہاں پہنچا اور اعلان کروا دیا کہ وہ گاؤں والوں سے ایک بندر 100روپے میں خریدے گا۔ دیہاتی اس آفر پر بہت خوش ہوئے اور دھڑا دھڑ بندر پکڑنا شروع کردئیے۔ اس تاجر نے کچھ ہی دنوں میں سو سو روپے میں 1000 بندر خرید لئے۔ اب وہاں بندروں کی تعداد بہت کم رہ گئی ، وہی باقی بچے تھے جنہیں پکڑنا بہت مشکل تھا۔ اب تاجر نے اعلان کیا کہ اب وہ ایک بندر 200 روپے میں خریدے گا۔ دیہاتیوں میں نیا جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر بھاگ دوڑ کرکے بندر پکڑنا شروع کئے اور مزید 120 بندر تاجر کے حوالے کردئیے۔ اب کبھی کبھار ہی کوئی بندر آس پاس دکھائی دیتا تھا۔ تاجر کے پنجرے میں تقریباً 1120جمع ہوچکے تھے۔ ایک دن تاجر نے اعلان کیا کہ وہ کسی کام سے باہر جارہا ہے اور اپنے ملازم کو وہیں بندروں کی رکھوالی کے لئے چھوڑ رہا ہے۔ پانچ دن بعد واپسی پر فی بندر 500 میں خریدے گا۔ اب تو جو بندر انسانی آنکھ سے دکھائی دے  جاتا ، لوگ مل کر اسے پکڑ لیتے لیکن دو دن گزرگئے صرف 9 بندر ہی پکڑے جاسکے۔ اب ملازم نے لوگوں کو آفر کی اس بڑے پنجرے (Cage) میں سوا گیارہ سو کے قریب بندر ہیں ، میں ایسا کرتا ہوں کہ 350 روپے فی بندر کے حساب سے یہ سارے بندر تمہیں بیچ دیتا ہوں جب میرا سیٹھ آئے تو تم اسےیہ بندر 500 کے حساب سے بیچ دینا۔ دیہاتی بہت خوش ہوئے ، انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی خرچ کرکے تمام بندر خرید لئے اور تاجر کا انتظار کرنے لگے۔ پانچواں کیا! چھٹا دن بھی گزر گیا ، تاجر نہیں آیا وہ بھاگم بھاگ گاؤں کے باہر بندروں کے پنجروں کے پاس پہنچے تو اس کا ملازم بھی غائب ہوچکا تھا۔ اب ان کی سمجھ میں آیا کہ انہیں لالچ میں پھنسا کر کس طرح لُوٹا گیا ہے لیکن پچھتاوے سے کچھ حاصل نہ تھا۔

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! یہ اسٹوری فرضی (Fictitious) سہی ، اس میں شامل دیہاتی بھی آپ کو دنیا کے احمق ترین انسان دکھائی دیں گے لیکن فراڈ کی جو خبریں ہمیں آئے دن سننے کو ملتی ہیں ان میں بھی حماقت وبے وقوفی کی کچھ ایسی ہی داستانیں ہوتی ہیں کہ جس کے ساتھ فراڈ ہوتا ہے اسے “ راتوں رات امیر ہونے “ کا لالچ دیا گیا ہوتا ہے ، سرمایہ چند دنوں میں “ چار گُنا “ کرنے کی پٹی پڑھائی جاتی ہے ، “ لاکھوں کی زمین  کوڑیوں کے مول “ بیچ دی جاتی ہے ، پچاس ہزار کی موٹر سائیکل صرف “ پانچ ہزار ایڈوانس “ کے بدلے دینے کا جھانسا دیا جاتا پھر اسکیم والے ہزاروں لوگوں کا ایڈوانس لے کر رَفُو چکر ہوجاتے ہیں ، کسی قرعہ اندازی میں “ لاکھوں کا انعام “ نکلنے کی خبر دے کر ہزاروں روپے بٹور لئے جاتے ہیں ، ایسی پارٹنر شپ کی آفر کی جاتی ہے کہ 10 مہینے میں رقم “ بیس گُنا “ بڑھ جانے کا آسرا دیا جاتا ہے۔ اگر ہم سمجھ داری سے اپنے دور میں سامنے آنے والے فراڈ کے نِت نئے طریقوں پر غور کریں گے تو ہمیں اس جال میں پھنسنے والے  لوگ “ بندر بیچنے والے دیہاتیوں “ سے مختلف دکھائی نہیں دیں گے۔ اب رہا سوال یہ کہ طرح طرح کے فراڈ سے بچا کیسے جائے؟ تو گزارش ہے کہ فراڈی شخص شکار کرنے کے لئے حِرص و لالچ کا جال استعمال کرتا ہے اگر ہم کسی قسم کی خلافِ عقل کاروباری آفر سننے کے بعد عقل کے مطابق فیصلہ کریں تو محفوظ رہ سکتے ہیں اور اگر لالچ کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر فیصلہ کیا تو ہماراحال بھی ان دیہاتیوں سے مختلف نہ ہو گا۔

اللہ پاک ہمیں فراڈ کا شکار ہونے سے بچائے ۔                                اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*مُدَرِّس مرکزی جامعۃالمدینہ ،  عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی

 


Share