یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءًۚ- ترجمہ : اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دئیے۔ (پ4 ، النساء : 1) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جان یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پیدا کیا اور ان کے وجود سے ان کا جوڑا یعنی حضرت حوا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کو پیدا کیا پھر انہی دونوں حضرات سے زمین میں نسل درنسل کثرت سے مرد و عورت کا سلسلہ جاری کیا۔
قرآنِ مجید میں انسان کی ابتدا ، تخلیق کے مراحل اور انسانی نفسیات پر بہت شان دار کلام موجود ہے اور کیوں نہ ہو کہ انسان کو خدا نے بنایا اور بنانے والے سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں بیان فرمایا : اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَؕ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۠(۱۴) کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟ حالانکہ وہی ہر باریکی جاننے والا ، بڑا خبردار ہے۔ (پ29 ، الملک : 14) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
قرآنِ پاک میں انسان کا خدا کی بارگاہ میں مقام ، اس کی خوبیاں ، خامیاں ، مثبت ومنفی پہلو ، طاقت و کمزوری نیز طاقت کے درست استعمال اور کمزوریوں سے نجات کے طریقے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن میں تفکر و تدبر کرنے والےکے لئے یہ سب تفصیل بہت دلچسپ بھی ہے اور مفید بھی۔ اس مضمون میں کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر مخلوقات سے معزز و مکرم بنایا ، چنانچہ قرآنِ پاک میں فرمایا : وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠(۷۰) ترجمہ : اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی۔ (پ15 ، بنی اسرآءیل : 70) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) مراد یہ ہے کہ انسان کو عقل ، علم ، قوتِ گویائی ، پاکیزہ صورت ، مُعْتَدِل قد و قامت عطا کئے گئے ، جانوروں سے لے کر جہازوں تک کی سواریاں عطا فرمائیں نیز اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا و آخرت سنوارنے کی تدبیریں سکھائیں اور تمام چیزوں پر غلبہ عطا فرمایا ، قوتِ تسخیر بخشی کہ آج انسان زمین اور اس سے نیچے یونہی ہواؤں بلکہ چاند تک رسائی اور مریخ تک کی معلومات حاصل کر چکا ہے ، بَحر و بَر میں انسان نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ورنہ اس کے علاوہ لاکھوں چیزیں اولادِ آدم کو عطا فرما کر اللہ تعالیٰ نے اسے عزت و تکریم سے مشرف کیا ہے اور اسے بقیہ مخلوقات سے افضل بنایا ہے حتی کہ انسانوں میں افضل ترین ہستیاں یعنی انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام تمام فرشتوں سے افضل ہیں اور نیک مسلمان عام فرشتوں سے افضل ہے۔
باطنی کمالات و فضائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ظاہری شکل و صورت میں بھی ممتاز بنایا ، چنانچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ٘(۴) ترجمہ : بیشک یقیناً ہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا۔ (پ30 ، التین : 4) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یعنی ہم نے آدمی کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ، اس کے اَعضاء میں مناسبت رکھی ، اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا ، اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اور اسے علم ، فہم ، عقل ، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے مُزَیّن کیا۔
قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصودِ کائنات انسان ہے اور بقیہ کائنات کو خدا نے انسان کے کاموں میں لگا یا ہوا ہے حتی کہ زمین میں جو کچھ پیدا کیا وہ سب انسانوں ہی کی خاطر پیدا کیا گیا ، چنانچہ سورۂ بقرہ میں بتایا : هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ- وہی ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے بنایا (پ1 ، البقرۃ : 29) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یعنی زمین میں جو کچھ دریا ، پہاڑ ، کانیں ، کھیتی ، سمندر وغیرہ ہیں سب کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دینی و دنیاوی فائدہ کے لئے بنایا ہے۔ دینی فائدہ تو یہ ہے کہ زمین کے عجائبات دیکھ کر انسان اللہ تعالیٰ کی حکمت و قدرت پہچانے اورعقل استعمال کر کے اسرار ِکائنات تک رسائی حاصل کرے جبکہ دنیاوی فائدہ یہ کہ دنیا کی ہزاروں چیزیں کھائے پئےاور اربوں ، کھربوں چیزیں اپنے فائدے میں استعمال کرے۔
پھر صرف زمین ہی انسان کے فائدے کے لئے نہیں بلکہ قرآن کے بیان کے مطابق نظامِ کائنات کی دیگر عظیم چیزیں جیسے سورج ، چاند ، ہوا ، پانی ، دن رات ، دریا ، نہریں ، سمندر وغیرہا بھی خدا نے انسانوں کے لئے کام میں لگائے ہوئے ہیں۔ زندگی گزارنے کے لئے جن چیزوں کی حاجت تھی یا مفید تھیں ، اللہ تعالیٰ نے وہ سب انسان کو مہیا فرمائیں ، چنانچہ فرمایا : اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَ جَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَۚ(۳۲) وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآىٕبَیْنِۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَۚ(۳۳) ترجمہ : اللہ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی اتارا تو اس کے ذریعے تمہارے کھانے کیلئے کچھ پھل نکالے اور کشتیوں کو تمہارے قابو میں دیدیا تاکہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور دریا تمہارے قابو میں دیدئیے اور تمہارے لیے سورج اور چاندکو کام پر لگا دیا جو برابر چل رہے ہیں اور تمہارے لیے رات اور دن کومسخر کر دیا۔ (پ13 ، ابراہیم : 32 ، 33) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) الغرض انسان کو اللہ کریم نے اپنے فضل و کرم اور رحمت سے اتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں کہ اگر گنتی کرنا چاہیں تو شمار نہ کر سکیں چنانچہ فرمایا : وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ- اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہیں کر سکو گے۔ (پ14 ، النحل : 18) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
قرآن کی آیتیں اور خدا کی عطا کردہ نعمتیں بآوازِ بلند بتا رہی ہیں کہ خدا کی اِس کائنات میں انسان کا مقام و مرتبہ اور حیثیت کتنی عظیم ہے ، لہٰذا صاحبِ عظمت کو چاہئے کہ عظمتوں والا طریقہ اختیار کرے اور وہ طریقہ ’’ربِّ عظیم کے حضور بندگی کا‘‘ ہے جبکہ ناشکری ، سرکشی ، جہالت ، ظلم ، تکبر ، فخر و غرور ، گھٹیا اخلاق و عادت انسان کے شایانِ شان نہیں بلکہ یہ اسے احسن تقویم (بہتر صورت) سے اسفل سافلین (سب سے نچلی اور کم تر حالت) میں جا گراتا ہے۔ انسانی کمزوریوں اور ان کے علاج پر اِنْ شَآءَ اللہ اگلے مضمون میں کلام کریں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…دارالافتاء اہلِ سنّت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments