ننّھے میاں کتابیں بستے میں رکھ رہے تھے جب ابّو نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئےپوچھا : بیٹا ہوم ورک مکمل کر لیا آپ نے؟ہاں جی !ابو جان!
ننھے میاں کا جواب سُن کر ابّو بولے : چلو پھر جلدی سے آجاؤ میں مارکیٹ سے کچھ سامان لینے جارہا ہوں سوچا آپ کو بھی لے چلوں۔ مارکیٹ سے ضروری سامان خریدنے کے بعد ابّو ننھے میاں کے لئے بیکری سے بسکٹ خرید کر باہر نکلے تو ننھے میاں کو آواز سنائی دی : مسجد کی تعمیر میں حصہ ملائیے اور جنّت میں گھر بنائیے!
ابّو جان یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ ننھے میاں نے پوچھا۔
ابو نے اپنی جیب سے 50 روپے والے دو نوٹ نکالے اور ننھے میاں کو دیتے ہوئے کہا : بیٹا! مارکیٹ کی مسجد ابھی مکمل نہیں بنی ہے تو یہ اسی کے لئے چندہ جمع کر رہے ہیں ، جاؤ! یہ انہیں دے آؤ ، ننھے میاں پیسے پکڑ کے مسجدکے گیٹ کی طرف چلے آئے جہاں دو باعمامہ نوجوان ٹیبل رکھے چندہ (Donation)جمع کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے اور وہاں اور بھی لوگ انہیں چندہ جمع کروا رہے تھے ، اپنی باری آنے تک ننھے میاں کے ذہن میں ایک خیال آیا اور انہوں نے ایک نوٹ جیب میں رکھا اور دوسرا جمع کرواکر ابّو کے ساتھ گھر چلے آئے۔
گھر پہنچ کر ابّو تو اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ ننھے میاں دادی کے پاس پہنچ گئے ، باتوں باتوں میں ننھے میاں جیب سے پیسے نکال کر کہنے لگے : دادی ! یہ دیکھئے آج میں نے ابو کے 50 روپے بچالئے۔
ہیں! وہ کیسے ننھے میاں؟ دادی نے پوچھا۔
ننّھے میاں نے مارکیٹ والی ساری بات بتادی تو دادی پوچھنے لگیں : ننھے میاں جب آپ کے ابّو نے دونوں نوٹ چندے میں جمع کروانے کے لئے دیئے تھے تو آپ نے ایک کیوں جمع کروایا؟
دادی! وہاں اتنے سارے لوگ تو پیسے دے رہے تھے تو میں نے سوچا ابّو کے آدھے پیسے بچالیتا ہوں۔ اس وقت ابّو کو بتا نہیں سکا ، رات کے کھانے (Dinner) پر انہیں بتادوں گا ، دادی! ابّو بہت خوش ہوں گے نا! ننھے میاں نے اپنی بات ختم کرکےدادی کا چہرہ دیکھا تو محسوس ہوا کہ دادی نے ان کی بات پہ کسی قسم کی خوشی کا مُظاہرہ نہیں کیا بلکہ کسی سوچ میں مگن تھیں۔
کچھ دیر بعد کہنے لگیں : ننھے میاں! آپ کو پتا ہے قحط کسے کہتے ہیں؟ جی نہیں دادی اماں۔
جب بارشیں بالکل ہی نہ ہوں یا کم ہوں تو پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ فصلیں بھی کم پیدا ہوتی ہیں اسے ہی قحط کہتے ہیں ، لوگوں کا بھوک اور پیاس سے برا حال ہو جاتا ہے۔ آئیے میں آپ کو ایک سچّا واقعہ سناتی ہوں : ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قَحْط پڑاتوآپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا : شام ہونے سے پہلے اللہ پاک تمہاری یہ تکلیف دور کردے گا۔ صبح ہوئی تو گندم اور کھانے کے سامان سے لَدے ہوئےایک ہزار اونٹوں کا قافلہ آگیا ، یہ سارے اونٹ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تھے۔ صبح کے وقت ہی تاجر لوگ حضرت عثمان کے پاس پہنچ گئے ، حضرت عثمان نے ان سے پوچھا : کیا ہوا؟انہوں نے کہا : آپ کے ایک ہزار اونٹ آئےہیں جن پر گندم اور دیگر چیزیں لَدی ہوئی ہیں ، آپ وہ ہمیں بیچ دیں۔ حضرت عثمان نے پوچھا : کتنا منافع (Profit) دو گے؟ انہوں نے کہا : دس روپے کی چیز کے بارہ روپے ، آپ نے فرمایا : مجھے اس سے زیادہ مل رہا ہے۔ تاجروں نے کہا : چودہ روپے لے لیں۔ آپ نے فرمایا : مجھے زیادہ ملتا ہے۔ انہوں نے کہا : دس کی چیز کے پندرہ لے لیں۔ آپ نے فرمایا : مجھے اس سے بھی زیادہ مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا : مدینہ کے تاجر توہم ہیں ، آپ کو کون زیادہ دے رہا ہے؟ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے ایک روپے پر دس روپے مل رہا ہے ، کیا تم اس سے زیادہ دو گے؟انہوں نے کہا : ہم اتنا زیادہ نہیں دے سکتے۔ آپ نے فرمایا : اے تاجرو! گواہ ہوجاؤ کہ میں نے کھانے پینے کا یہ تمام سامان مدینے کے ضرورت مندوں کے لئے صدقہ کردیا ہے۔ (الریاض النضرۃ ، 2 / 43)
ننھے میاں نے فوراً پوچھا : دادی! ان کو اتنا زیادہ منافع کس نے دیا؟
دادی نے کہا : ہمارے پیارے اللہ پاک نے! اللہ کی راہ میں جو ایک روپیہ صدقہ کرتا ہے اسے دس روپے صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے حضرت عثمان نے کھانے پینے کا سارا سامان صدقہ کرکے دس گنا صدقہ کرنے کا ثواب پالیا۔
ننھےمیاں نے سَر ہلاتے ہوئے کہا : اچھا تو یہ بات ہے۔
دادی فوراً اپنے مقصد کی طرف آتے ہوئے بولیں : ننھے میاں! غریبوں کی مدد کرنا ، مسجد میں چندہ دینا ، دین کے کام کی مدد کےلئے پیسے دینا یہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے ، کم پیسے دیتے ہوئے یہ نیّت نہیں ہونی چاہئے کہ میں نے پیسے بچالئے بلکہ اللہ کی راہ میں جتنا زیادہ دیا جائے ثواب بھی کئی گنا زیادہ ملتا ہے اور حقیقی بچت (Saving) بھی یہی ہے ، اب مجھے بتاؤ! جب آپ کے ابّو کو پتا چلے گا کہ ننھے میاں نے ان کے ثواب میں کمی کردی توکیا وہ خوش ہوں گے؟
ننھے میاں جو واقعہ سُن کر اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ حقیقی بچت ثواب ہی ہے انہیں اب پتا چل گیا تھا کہ ابو خوش نہیں ہوں گے بلکہ بُرا مانیں گے لہٰذا جواب دینے کے بجائے شرمندگی سے اپنا سر جھکالیا ، پھر پوچھنے لگے : دادی! اب کیا کروں ؟
دادی نے کہا : آپ ابّو کو ساری بات سچ سچ بتادینا اور انہیں کہنا کہ اگلی بار بازار جائیں تو مجھے بھی ساتھ لیتے جائیں میں نے یہ پیسے مسجد کے چندے میں جمع کروانے ہیں۔ ٹھیک ہے دادی اماں! یہ کہہ کر ننھے میاں ابّو کے کمرے کی طرف روانہ ہوگئے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments