نيكی کی دعوت کےذرائع

بُزرگانِ دین نے نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے جو ذرائع اختیار فرمائے ان میں سے تین یہ ہیں : * تحریر * بیان اور * کردار۔ (1)تحریر:تحریر کے ذریعے لوگوں کو اللہ کی راہ کی طرف بلانے کا سلسلہ بہت پُرانا ہے۔ حضرت سیّدُنا کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیّدُنا آدم علیہ السَّلام نےاپنی وفات سے تین سو سال قبل سب سے پہلے عربی و سُریانی زبانوں میں کتابیں لکھیں۔ پہلے انہیں گیلی مٹی پر لکھا اور پھر آگ سے پختہ کیا۔ ([i])حضرت سیّدُنا سلیمان علیہ السَّلام نے ملکہ بلقیس کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے ایک خط لکھا جس کا ذِکْر قراٰنِ کریم میں بھی موجود ہے۔ ([ii]) صلح حُدَیبِیہ کے بعد جب جنگ و جِدال کے خطرات ٹل گئے اور ہر طرف امن و سکون کی فضا پیدا ہوگئی تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے روم کے بادشاہ “ قیصر “ فارس کے بادشاہ “ کسریٰ “ حبشہ کے بادشاہ “ نجاشی “ مصر کے بادشاہ “ عزیز “ اور دوسرے سلاطینِ عرب و عجم کے نام دعوتِ اسلام کے خطوط روانہ فرمائے۔ ([iii])

پیارے اسلامی بھائیو! عُلَمائےکرام ہر دور میں اللہ پاک کے بندوں کو اس کی طرف بلانے اور نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے تحریر کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ مُفسّرین ، مُحَدّثین ، فُقَہا ، مجتہدین وغیرہ نے اُمّت کی راہنمائی کے لئے اس قدر کتابیں لکھیں ہیں کہ ان کا شمار بھی ممکن نہیں ۔ بعض عُلَمائے کرام نے مختصر سی زندگی میں بھی اس قدر زیادہ اور ضخیم کتابیں لکھی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کثیر کتابیں لکھنے والے بزرگوں میں سے چند نام یہ ہیں : امام ابوالوفاء ابن عقیل نے 80فنون پر کتابیں لکھیں جن میں سے ایک کتاب 800جلدوں پر بھی مشتمل ہے۔ امام محمد کی تالیفات 1 ہزار کے قریب ہیں۔ امام ابنِ جریرنے اپنی زندگی میں 3لاکھ 58 ہزار اوراق لکھے۔ امام غزالی نے 78 اصلاحی ، علمی اور تحقیقی کتابیں لکھیں جن میں صرف یاقوت التاویل چالیس جلدوں میں ہے۔ امام ابنِ حجر مکی شافعی  نے 500سے زائد تصانیف یادگار چھوڑیں۔ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ہزار سے زائد تصانیف فرمائیں۔ دورِ حاضر میں امیرِ اہلِ سنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَہ نے بھی دعوتِ اسلامی کے حوالے سے کثیر مصروفیات اور عبادات و معاملات وغیرہ کے باوجود سینکڑوں کُتب و رَسائل تحریر فرمائے ہیں۔ (2)بیان(تقریر):مخلوق کو خالق کی طرف بلانے کا ایک اہم ذریعہ زبان سے درس و بیان اور انفرادی کوشش کرنا بھی ہے۔ انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام ہر دور میں اللہ کے بندوں کو زبانی طور پر اللہ کی طرف بلاتے رہے یہاں تک کہ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی یہی انداز اختیار فرمایا۔ جب اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خاندان کے قریبی لوگوں کو نیکی کی دعوت دینے کا حکم فرمایا تو حُضورانور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کوہِ صفا پر تشریف لے جاکر اپنے بیانِ عالیشان کے ذریعے لوگوں کو اللہ پاک کے دین کی طرف بلایا۔ اعلانِ نبوت کے بعد اپنی 23 سالہ ظاہری حیات میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی زبان مبارک سےمسلسل  اللہ کے بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا اور آج بھی آپ کی زبا نِ مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ احادیث کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں۔

سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان   اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لئے دنیا میں پھیل گئے اور مخلوق تک خالق کا پیغام پہنچا یا ۔ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تابعین ، تبع تابعین ، علمائے ربّانِیین وصالحین بھی اپنے اپنے مَنصب اورصلاحیت کے مطابق نیکی کی دعوت میں مصروف رہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ!عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک “ دعوتِ اسلامی “  بھی اسی عظیم مشن کی ایک کڑی ہے اور تادمِ تحریر دنیا کے دو سو سے زائد ممالک تک اپنا پیغام پہنچا چکی ہے جس کی برکت سے لاکھوں بے عمل مسلمان تائب ہوکر سنّتوں کے عامل اور نیکی کی دعوت عام کرنے والے بن چکے ہیں۔ دعوتِ اسلامی کے مُبلغّین اللہ کے بندوں کو اس کی طرف بلانے کے لئے درس و بیان کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ یاد رکھئے! اچّھا بیان کرنے کےلئے مُبلّغ چند چیزوں کاضرور خیال رکھے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ جہاں بیان کرنا ہے اس جگہ کے متعلق معلومات حاصل کرے کہ وہاں بیان میں لوگ کس طرح کے ہوں گےتاکہ ان کے ذہن اور مراتب کے لحاظ سے ان کے سامنے بیان کی تیاری کی جاسکے ، اس علاقے اور شہر میں کون سے گناہ اور بُرے کام ہوتے ہیں تاکہ ان کے عذابات و خرابیوں کا پیشگی مُطالَعہ کیا جاسکے ، نیز بیان کے لئے آسان الفاظ کا انتخاب کیا جائے۔

(3)کردار:پیارے اسلامی بھائیو! تحریر اور تقریر کے ذریعے دین کی تبلیغ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ تحریر کے ذریعے اللہ کی طرف بلانے کے لئے  علمِ دین ضروری ہے ، اگر غیرِ عالم دینی کتاب لکھنے کی کوشش کرے تو غلطی ہونے کا کثیر امکان ہے۔ زبان سے نیکی کی دعوت دینے کے لئے علم کے ساتھ ساتھ بولنے کا ڈھنگ بھی چاہئے۔ اگر غیرِ عالم درس و بیان کرنا چاہے تو اسے چاہئے کہ کسی مستند عالمِ دین کی کتاب سے پڑھ کر سُنا دے۔ البتہ دین کی تبلیغ کا ایک ذریعہ ایسا ہے جو تحریر اور تقریر سے آسان ہے اور وہ ہے کردار کے ذریعے نیکی کی دعوت عام کرنا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی کُفّارِ مکّہ سرکار ِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اعلیٰ کردار کے سبب آپ کو صادق اور اَمین کہا کرتے تھے۔ بُزُرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم نے تحریر اور تقریر کے علاوہ اپنے کردار سے بھی نیکی کی دعوت عام فرمائی۔

حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ نےایک یہودی کے مکان کے قریب کرائے پر مکان لے لیا اور آپ کاحُجرہ یہودی کے دروازے سے مُتَّصِل تھا۔ یہودی نے ایک ایسا پَرنالہ بنوایا جس کے ذریعے گندگی آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مکان پر ڈالتا رہتا اور آپ کی نماز کی جگہ ناپاک ہوجایا کرتی۔ بہت عرصہ تک وہ یہ عمل کرتا رہا لیکن آپ نے شکایت نہیں کی۔ ایک دن اس یہودی نے خود ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کی : میرے پَرنالے کی وجہ سے آپ كو کوئی تکلیف تو نہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : پَرنالے سے جو غَلاظت گرتی ہے اس کو جھاڑو لیکر روزانہ دھو ڈالتا ہوں۔ یہودی نے عرض کی : اِتنی اَذِیَّت برداشت کرنے کے بعد بھی کبھی آپ کو غُصّہ نہیں آیا؟فرمایا : خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمۂ کنزُالایمان : اور غصہ پینے والے اورلوگوں سے درگزرکرنے والے اورنیک لوگ اللہکے محبوب ہیں۔ ([iv])یہ آیاتِ مقدسہ سُن کر وہ یہودی بہت متأثر ہوا ، اور یوں عرض گزارہوا ، یقیناً آپ کا مَذہب بَہُت عُمدہ ہے کیونکہ اس میں دشمنوں کی اَذِیَّتوں پر صبر کرنے کو اچّھا کہا گیا ہے۔ آج میں سچّے دل سے اسلا م قَبول کرتا ہوں۔ ([v])

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ اللہ کے بندوں کو اس کی طرف بلانے کے لئے اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق تحریر ، تقریر اور اپنے کردار کو استعمال فرمائیں اور اس مقصد میں آسانی کے لئے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے عملاً وابستہ ہوجائیں۔

اللہ کریم ہمیں اخلاص کے ساتھ دینِ اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

نوٹ : یہ مضمون نگرانِ شوریٰ کے بیانات اور گفتگو وغیرہ کی مدد سے تیار کرکے انہیں چیک کروانے کے بعد پیش کیا گیا ہے۔

 



([i])   روح البیان ، 10 / 473

([ii])   پ19 ، النمل : 28

([iii])   سیرتِ مصطفیٰ ، ص364

([iv])   پ4 ، اٰلِ عمرٰن : 134

([v])   تذکرۃ الاولیاء ، ص51


Share