سب سے پہلےنبوت عطا کی گئی

باتیں میرے حضور کی

سب سے پہلے نبوت عطا کی گئی

*   کاشف شہزاد عطاری  مدنی

ماہنامہ ربیع الاول1442ھ

اللہ کریم نے اپنے پیارے نبی ، محمد عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو بے شمار خَصائص یعنی خصوصی فضائل سے نوازا ہے۔ ہمارے پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ان خصوصی کمالات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کو  تمام انبیائےکرا م  علیہم السَّلام  سے پہلے پیدا کرکے مرتبۂ نبوت عطا کیا گیا۔ ([1])

سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اس عظیمُ الشّان فضیلت سے متعلق قراٰنِ کریم ، احادیثِ مبارکہ اور بزرگانِ دین کے فرامین سے چند دلائل ملاحظہ فرمائیے :

قراٰنِ کریم سے 2دلائل : (1)الله پاک کا فرمانِ عالیشان ہے : ( وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪- ) تَرجَمۂ کنز ُالعرفان : اور اے محبوب! یاد کرو جب ہم نے نبیوں  سے اُن کا عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (عہد لیا) ۔ ([2])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

پیارے اسلامی بھائیو!اس آیتِ مقدسہ میں بالخصوص پانچ انبیائے کرام  علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام  کا ذکر کیا گیا۔ ان پانچ میں سے چار نبیوں کا ذکر اسی ترتیب سے ہوا جس ترتیب سے وہ دنیا میں تشریف لائے تھے لیکن حضورِ اقدس  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تشریف آوری اگرچہ تمام نبیوں  کے بعد ہوئی  لیکن  آپ کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا ۔ علمائے کرام نے اس کی  ایک  حکمت یہ  بیان فرمائی ہے کہ اس میں سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو سب سے پہلے نبوت عطا ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ ([3])

(2)حضرت سیّدُنا عیسیٰ اور حضرت سیّدُنا یحییٰ  علیہمَا الصَّلٰوۃ  وَالسَّلام  کو بچپن میں ہی نبوت عطا کردی گئی تھی۔

قراٰنِ کریم میں حضرت سیّدُنا عیسیٰ  علیہ السَّلام  کا یہ قول نقل کیا گیا ہے : ( قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ(۳۰)) تَرجَمۂ کنز ُالایمان : بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا۔ ([4](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  حضرت سیّدُنا عیسیٰ  علیہ السَّلام  سے متعلق فرماتے ہیں : انہیں ماں کے پیٹ یا گود میں کتاب عطا ہوئی ، نبوت دی گئی۔ ([5])

اللہ کریم نے حضرت سیّدُنا یحییٰ  علیہ السَّلام  سے متعلق ارشاد فرمایا : ( وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔ ([6](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

صَدْرُالافاضل حضرت علّامہ مولانا سیّد نعیم الدّین مراد آبادی  رحمۃ اللہ علیہ   خزائنُ العرفان “ میں فرماتے ہیں : اس آیت میں حُکْم سے نبوّت مراد ہے ، یہی قول صحیح ہے۔

اے عاشقانِ رسول! رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو سب سے پہلے مرتبۂ نبوت عطا کیا گیا اور مرتبۂ نبوت زائل نہیں ہوسکتا۔ ([7]) لہٰذا نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  عالَمِ ارواح میں عطا کردہ نبوت کے ہمراہ دنیا میں تشریف لائے۔ ان دونوں آیاتِ مقدسہ سے سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا مبارک بچپن میں بھی مَنصبِ نبوت پر فائز  ہونا اس طرح ثابت ہوتا ہےکہ دیگر انبیائے کرام  علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کو جو فضائل الگ الگ عطا ہوئے  وہ سب ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے لئے نہ صرف  جمع کر دیئے گئے بلکہ آپ کو ان حضرات سے زیادہ عطا کیا گیا۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لئے 3 اقوال ملاحظہ فرمائیے :

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : کُلُّ فَضِیْلَۃٍ وَمُعْجِزَۃٍ وَکَرَامَۃٍ لِنَبِیٍّ فَھُوَ ثَابِتَۃٌ لِنَبِیِّنَا  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  فَاِذَا رَاَیْنَا ثُبُوْتَہَا لِاَحَدٍ حَکَمْنَا بِثُبُوْتِہَا لَہٗ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  وَلَا نَحْتَاجُ اِلٰی دَلِیْلٍ آخَرٍ یعنی ہر وہ فضیلت ، معجزہ اور  بزرگی جو کسی بھی نبی کو حاصل ہوئی وہ ہمارے نبی  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  کے لئے بھی ثابت ہے۔ جب ہم کسی نبی کے لئے ان کا ثبوت دیکھیں گے تو نبیِّ کریم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  کے لئے بھی انہیں ثابت مانیں گے اور اس کے لئے ہمیں کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ ([8])

ایک مقام پر فرماتے ہیں : کسی نبی نے کوئی آیت و کرامت ایسی نہ پائی کہ ہمارے نبیِّ اکرم نَبِیُّ الاَنبیاء  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم وسلَّم  کو اس کی مثل اور اس سے اَمْثَل (یعنی بڑھ کر) عطا نہ ہوئی۔ ([9])

غزالیِ زماں حضرت علّامہ مولانا سیّد احمد سعید کاظمی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں : اظہارِ کمالاتِ محمدی  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  کے بارے میں علمائے اُمّت کا ہمیشہ یہ مسلک رہا ہے کہ جب انہوں نے کسی فردِ مخلوق میں کوئی ایسا کمال پایا جو ازروئے دلیل بہ ہیئتِ مخصوصہ اس کے ساتھ مُخْتَص نہیں تو اس کمال کو حضور  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  کے لیے اس بناء پر تسلیم کرلیا کہ حضور  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  تمام عالَم کے وجود اور اس کے ہر کمال کی اصل ہیں۔ جو کمال اصل میں نہ ہو فرع میں نہیں ہوسکتا ، لہٰذا فرع میں ایک کمال پایا جانا اس امر کی روشن دلیل ہے کہ اصل میں یہ کمال ضرور ہے۔ ([10])

2 فرامینِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : (1)صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان  نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : یا سولَ اللہ!آپ کے لئے نبوت کب ثابت ہوئی؟ سیّدِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ (یعنی میرے لئے نبوت اس وقت ثابت ہوئی) جب کہ آدم ( علیہ السَّلام ) رُوح اور جسم کے درمیان تھے۔ ([11]) (2)ایک اور موقع پر رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے پوچھا گیا : مَتٰى اُسْتُنْبِئْتَ یعنی آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ ارشاد فرمایا : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ حِيْنَ اُخِذَ مِنِّي الْمِيْثَاقَ (یعنی مجھے اس وقت نبی بنایا گیا) جب آدم ( علیہ السَّلام ) ابھی رُوح اور جسم کے درمیان تھے ، جب مجھ سے عہد لیا گیا۔ ([12])

مفتیِ اعظم ہند مصطفےٰ رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :

ذات کا اپنی آئینہ    بے مثل و نظیر وبے ہَمتا

خَلق کیا قبل اَز اَشیا       اور نبوت کردی عطا

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اٰمَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ([13])

بزرگانِ دین کے ارشادات : اے عاشقانِ رسول! سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اس خُصوصی شان یعنی سب سے پہلے نبوت عطا کئے جانے کو کثیر بزرگانِ دین نے بیان فرمایا ہے۔ 9فرامین ملاحظہ فرمائیے :

(1)امام ابوبکر احمد بن حسین آجُرِّی  رحمۃ اللہ علیہ  (وفات : 360ھ) : اِنَّ نَبِيَّنَا مُحَمَّداًصلَّى الله عليه وسلَّم لَمْ يَزَلْ نَبِيّاً مِّنْ قَبْلِ خَلْقِ آدَم یعنی بے شک ہمارے نبی حضر ت محمد مصطفےٰ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  حضرت آدم  علیہ السَّلام  کی تخلیق سےبھی  پہلے سے نبی ہیں۔ ([14])

(2)امام تَقِیُّ الدّین علی بن عبدالکافی سُبکی  رحمۃ اللہ علیہ  (وفات :  756 ھ) : ہمیں صحیح حدیث کے ذریعے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اللہ پاک نے حضرت سیّدُنا آدم  علیہ السَّلام  کو پیدا کرنے سے پہلے ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو مقامِ نبوت پر فائز کیا۔ ([15])

(3)حضرت علّامہ علی بن سلطان قاری  رحمۃ اللہ علیہ  (وفات : 1014ھ) : حدیثِ پاک : کُنْتُ نَبِیّاً وَّآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَد اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ کے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  عالَمِ اَرْوَاح میں مخلوق کی پیدائش سے پہلے بھی نبی تھے۔ ([16])

(4)شِہابُ الملّۃ وَالدِّین حضرت علّامہ احمد بن محمد خَفاجی مصری رحمۃ اللہ علیہ  (وفات : 1069ھ) : حق یہ ہے کہ ہم یوں کہیں : بے شک اللہ پاک نے اپنے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک روح کو تمام روحوں سے پہلے پیدا فرمایا اور اس مقدس روح کو نبوت  عطا فرمائی۔ ([17])

(5)امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ : ہمارے حضور  صَلَوَاتُ اللہِ تَعَالٰی وَسَلَامُہٗ عَلَیْہ سب انبیاء کے نبی ہیں اور تمام انبیاء و مُرسلین اور ان کی اُمّتیں سب حضور کے امتی۔ حضور ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی نبوت و رِسالت زمانۂ سیّدُنا اَبُوالْبَشَر (آدم)  علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام  سے روزِ قیامت تک جمیع خَلْقِ اللہ (یعنی اللہ پاک کی ساری مخلوق) کو شامل ہے ، اور حضور کا ارشاد کُنْتُ نَبِیّاً وَّآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَد اپنے معنیٔ حقیقی پر ہے۔ ([18])

مزید فرماتے ہیں : حضور( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  )  کی رسالت زمانۂ بِعْثَت (یعنی جس دور میں آپ نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا اُس) سےمخصوص نہیں بلکہ سب کو حاوی۔ ([19])

(6)صدرُ الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی  رحمۃ اللہ علیہ : سب سے پہلے مرتبۂ نبوّت حضور ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو ملا۔ ([20])

(7)خلیفۂ اعلیٰ حضرت مفتی برہانُ الحق جبل پوری  رحمۃ اللہ علیہ : حضور اَوَّلُ الْخَلْق مُحَمَّدٌ رَّسولُ اللہ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  کی نبوت ابتداءِ آفرِینِش (یعنی مخلوق کی پیدائش کے آغاز) سے ہے اور تاقیامت رہے گی۔ (مزید فرماتے ہیں : ) حضورِ اکرم مُحَمَّدٌ رَّسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  اولِ خِلقت (یعنی تخلیق  کی ابتدا) سے نبی ہیں۔ ([21])

 (8)صدرُالْعُلَماء ، امامُ النَّحْو حضرت علّامہ سیّد غلام جیلانی میرٹھی  رحمۃ اللہ علیہ : غارِ حرا کی اس وحی سے نبوت کا ظُہور شروع ہوا ہے ورنہ نبوت تو اس واقعہ سے  ہزارہا سال پیشتر عالَمِ اَرْواح میں عطا ہوچکی تھی۔ اس وقت تک حضرت آدم علٰی نَبِیِّنَا و علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام  پیدا بھی نہ ہوئے تھے اور عالمِ اَرْواح میں تخلیقِ آدم سے پیشتر  نبوت کا ملنا آپ کی خصوصیات سے ہے۔ ([22])

(9)شارحِ بخاری مفتی شریفُ الحق امجدی  رحمۃ اللہ علیہ : حضورِ اقدس  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  نُزولِ وحی کی ابتدا سے پہلے ہی بلکہ روزِ اَزَل (یعنی مخلوق کی پیدائش کے آغازکے دن) سے مَنصبِ نبوت پر فائز تھے۔ ([23])

پیدائش میں اوّل ، بِعْثَت میں آخر : پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو تمام انبیائے کرام  علیہم السَّلام  سے پہلے پیدا فرماکر مرتبۂ نبوت عنایت فرمایا لیکن آپ کی دنیا میں تشریف آوری اور نبوت کا اعلان سارے نبیوں کے بعد ہوا۔ 2 روایات ملاحظہ فرمائیے :

(1)فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : كُنْتُ اَوَّلَ النَّبِيِّيْنَ فِي الْخَلْقِ وَآخِرَهُمْ فِي الْبَعْث یعنی میں پیدائش کے اعتبار سے سب نبیوں سے پہلےاور بِعْثَت([24])کے لحاظ سے سب کے آخر میں ہوں۔ ([25]) (2)اللہ پاک نے شبِ معراج اپنے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے ارشاد فرمایا : جَعَلْتُكَ فَاتِحاً وَّخَاتِماً یعنی میں نے آپ کو فَاتِح اور خَاتِم بنایا ہے۔ ([26]) حضرت علّامہ احمد بن محمد خَفاجی مصری  رحمۃ اللہ علیہ  اس کی شرح میں لکھتے ہیں : اَیْ اَوَّلَ الْاَنْبِیَاء وَ آخِرَھُمْ یعنی سب سے پہلا اور سب سے آخری نبی بنایا ہے۔ ([27]) امام خفاجی مِصری  رحمۃ اللہ علیہ  ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تخلیق اور نبوت کے اعتبار سے انبیائے کرام  علیہم السَّلام  میں سب سےپہلے ہیں جبکہ بِعْثَت اور تشریف آوری کے لحاظ سے سب سے آخر میں ہیں۔ ([28])

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود

ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام([29])


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی



([1])   کشف الغمہ ، 2 / 53 ، خصائص کبریٰ ، 1 / 7

([2])   پ21 ، الاحزاب : 7

([3])   شرح الشفا ، 1 / 116 ، روح المعانی ، 21 / 206

([4])   پ16 ، مریم : 30

([5])   فتاویٰ رضویہ ، 15 / 616

([6])   پ16 ، مریم : 12

([7])   بہارِ شریعت ، 1 / 37ملخصاً

([8])   انباء الحی ، ص311

([9])   فتاویٰ رضویہ ، 30 / 295

([10])   مقالاتِ کاظمی ، 2 / 262

([11])   ترمذی ، 5 / 351 ، حدیث : 3629

([12])   الطبقات الکبریٰ ، 1 / 118

([13])   سامانِ بخشش ، ص42

([14])   کتاب الشریعۃ ، ص1433

([15])   خصائص کبری ، 1 / 10 ملخصاً

([16])   شرح فقہِ اکبر ، ص106

([17])   نسیم الریاض ، 3 / 130

([18])   فتاویٰ رضویہ ، 30 / 138

([19])   فتاوی رضویہ ، 30 / 149

([20])   بہار شریعت ، 1 / 85

([21])   اجلال الیقین ، ص27 ، امامِ اہلِ سنت امام احمد رضاخان  رحمۃ اللہ علیہ    نے اس  رسالے کا مطالعہ فرماکر اس پر تقریظ بھی لکھی ہے۔

([22])   بشیر القاری ، ص126

([23])   فتاویٰ شارح بخاری ، 1 / 369

([24])   ظُہورنبوت کوبِعْثَت کہاجاتاہے۔ (مراٰۃ المناجیح ، 8 / 91)

([25])   کنزالعمال ، جزء : 11 ، 6 / 205 ، حدیث : 32123

([26])   مجمع الزوائد ، 1 / 241 ، حدیث : 235

([27])   نسیم الریاض ، 3 / 300

([28])   نسیم الریاض ، 3 / 86

([29])   حدائقِ بخشش ، ص296


Share