اچھی بات سکھاتے یہ ہیں

حدیث شریف اور اُس کی شرح

اچھی بات سکھاتے یہ ہیں

*   محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ ربیع الاول1442ھ

فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا۔ ([i])

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (1)حضور کی تشریف آوری کا ایک  مقصد تعلیم ہے ، اللّٰہ پاک کا ارشاد ہے : ( وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ )  (ترجمۂ کنزالایمان : اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں) (2)یاد رہے کہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو “ تعلیمِ الہٰی “ نے معلم بنایا ہے ، آپ مخلوق کی  تعلیم  سے معلم ہرگز نہیں  بنے (3)حُضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اگرچہ اوّل درجہ کے عابد بھی ہیں لیکن حُضور کی عبادت عملی تعلیم ہے۔ لہٰذا آپ نماز پڑھتے ہوئے بھی معلم ہیں۔ ([ii])

اے عاشقانِ رسول! “ جاننا “ انسان کا بنیادی  حق ہے کیوں کہ اِس کی بدولت وہ جینے کا سلیقہ سیکھتا ہے اور ترقی و کامیابی کا زینہ چڑھتا ہے اور جب انسان سے جاننے کا حق چھین لیا جائے تو وہ جہالت کے اندھیروں میں بھٹک کر ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔ بعثتِ نبوی سے قبل دنیا کی تاریخ  کا گہرائی  سے جائزہ  لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ  بنیادی طور پر جس معاشرے سے جاننے کا حق چھینا گیا وہاں کردار سازی کا عمل رُک گیا اور اِنسانی ہلاکتوں کے ایسے وحشت ناک مناظر صفحاتِ تاریخ پر نمودار ہوئے کہ آج بھی اُن  پر نظر دوڑانے والے کی روح کانپ اُٹھتی ہے۔ اللّٰہ پاک نے اِن حالات میں انسانیت پر  کرم  نوازی فرمائی اور آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو کتاب و حکمت سکھانے کے لئے اِس دنیا میں مبعوث فرمایا ۔ مذکورہ بالا حدیثِ پاک میں حُضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اسی مقصدِ بعثت کو بیان فرمایا ہے۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اِس مقصدِ بعثت کو اِس قدر خوبصورتی سے نبھایا کہ درسگاہ ِ نبوت سےتعلیم پانے والے صحابۂ کرام نے امت کے بہترین افراد ہونے کا شرف حاصل کیا اور اللّٰہ پاک  کی رضامندی کا مژدہ پایا بلکہ بقول  امام قَرافی “ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا صحابۂ کرام کے سوا کوئی معجزہ نہ ہوتا تو “ اثباتِ نبوتکے لئے صحابۂ کرام ہی  کافی ہوتے۔ “ ([iii])

 “ معیارِ علم “ کیا ہو؟ : “ علم “ کی اہمیت کا ہر کوئی قائل ہے مگر کون سا علم  معیاری ہے اور کون سا غیر معیاری؟ اس کی تعیین ہر ایک اپنے ذوق ، ضرورت اور سمجھ کے مطابق کرتا ہے اور کبھی  تو اس کے نتائج بھیانک بھی نکل آتے ہیں۔ رسول ِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےنفع بخشہونے کو علم کا معیار مقرر فرمایا ہے چنانچہ  آپ نے یوں دعا فرمائی : ہم ایسے علم سے اللہ پاک کی پناہ مانگتے ہیں جو نفع نہ دے۔ ([iv])

نفع بخش ہونے کے معیار پر جس علم کو پرکھا جائے گا وہ ہلاکت خیزی سے یقیناً محفوظ رہے گا۔

موجودہ دور میں قابلیت (Skills) بڑھانے کی دوڑ جاری ہے ، اگر ہر شخص نیت کی درستی کے ساتھ بارگاہ ِ رسالت سے عطا کردہ اِس معیار ِ علم کو اپنا لے تو معاشرے سے مفاد پرستی کا خاتمہ ہوگا اور معاشرہ   نیک سیرت اور ہمدرد افراد سے بھر جائےگا۔

سكھانے كا انداز کیسا ہو؟رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے معیارِ علم کے ساتھ علم سکھانے کے لئے ایک ایسا عملی انداز عطا فرمایا ہے کہ جس میں نہ ڈانٹ ڈپٹ ہے اور نہ ہی جھڑکیاں ، چنانچہ حضرت مُعاویہ بن حکم سُلمی  رضی اللہ عنہ  نماز ادا فرما رہے تھے ، دورانِ نماز کسی کو چھینک آگئی ، حضرت معاویہ بن حکم نے “ یَرْحَمُکَ اللہکہا تو اِردگرد موجود نمازیوں کو تشویش ہوئی اور اپنے انداز سے آپ کو اس چیز  کا احساس دِلا دیا ، نماز سے فراغت کے بعد معلمِ کائنات  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ کو اپنے پاس بلایا اور اِس موقع پر آپ فرماتے ہیں : میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے  بڑھ کر سکھانے والا نہیں دیکھا ، اللہ کی قسم! نہ تو آپ نے مجھے جِھڑکا ، نہ مارا اور نہ ڈانٹا ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : بے شک اِس نماز میں لوگوں کی بات قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ، نماز تو تسبیح و تکبیر اور قراءتِ قراٰن کا نام ہے۔ ([v])

تدریسِ نبوی کا ایک انداز مثال دے کر سمجھانا بھی ہے جیسا کہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے قراٰن پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے کا فرق ایک مثال  کے ذریعے یوں ارشاد فرمایا : قراٰن پڑھنے والے مؤمن کی مثال اس سنگترے کی طرح ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ بھی اچھا ہے اور قراٰن نہ پڑھنے والے مؤمن کی مثال اس کھجور کی طرح ہے جسکی خوشبو تو نہیں ہوتی مگر ذائقہ اچھا ہوتا ہے اور قراٰن پڑھنے والے منا فق کی مثال اس پھول کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے مگر ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور قراٰن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اس اندرائن کی طرح ہوتی ہے جس کی خوشبو نہیں ہوتی اور ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے۔ ([vi])

اسی طرح قراٰن سیکھنے اور پڑھنےکی اہمیت  یوں مثال دے کر واضح فرمائی : قراٰن سیکھو اور اسے پڑھا کروکیونکہ قراٰن سیکھ کر پڑھنے والے کی مثال مشک سے بھرے ہو ئے چمڑے کے تھیلے کی طرح ہے جس کی خوشبو سارے گھر میں پھیل جاتی ہے ، اور جس نے قراٰن سیکھا پھر غا فل ہوگیا اور اس کے سینے میں قراٰن ہے تو اس کی مثال چمڑے کے اس تھیلے کی طرح ہے جس کے ذریعے مشک کو ڈھانپ دیا گیاہو۔ ([vii])

اچّھے اور بُرے ہم نشین کو مثال کے ذریعے یوں واضح فرمایا : نیک اور بُرے ہم نشین کی مثال ایسی ہے جیسے ایک کے پاس مشک ہے اور دوسرا دھونکنی دھونک رہا ہے مشک والا یا تو تمہیں مشک ویسے ہی دے گا یا تو اس سے خرید لے گا اور کچھ نہ سہی تو خوشبو تو آئے گی اور وہ دوسرا تمہارا بدن یا کپڑے جلا دے گا یا تو اس سے بدبو پائے گا۔ ([viii])

سیرتِ طیبہ میں کئی ایسے واقعات ملیں گےجن میں تمام  معلمین کے لئے لطف و کرم کے ذریعے سکھانے کی بھرپور ترغیب موجود ہے نیز اس میں کریمانہ اندازِ تدریس کے ساتھ مشفقانہ طرزِ تربیت بھی شامل ہے اور یہ دونوں وہ عناصر ہیں  جن کے ذریعے انسان  کےظاہر و باطن پر “ علم “ براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے اور اُسے معاشرے کے لئے نفع مند بنانے میں اہم  کردار ادا کرتا ہے۔

جملے تلاش کیجئے!

 “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ محرم الحرام 1442ھ کے سلسلہ “ جملے تلاش کیجئے “ میں بذریعہ قرعہ اندازی ان تین خوش نصیبوں کے نام نکلے : “ بنتِ  عبد الرّحمان (سرگودھا) ، بنتِ خادم حسین (نارووال) ، بنتِ خالد اقبال (میرپورخاص) “ انہیں “ مدنی چیک “ روانہ کر دیئے گئے ہیں۔ درست جوابات : (1)جنّتی جوانوں کے سردار : صفحہ49 ، (2)دانتوں سے ناخن کاٹنا : صفحہ49 ، (3)ایک دن کا وعدہ : صفحہ 54 ، (4)آئس کریم اور انگلش کی کاپی : صفحہ50 ، (5)آئس کریم اور انگلش کی کاپی : صفحہ 50 ۔ درست جوابات بھیجنے والوں میں سے 12 منتخب نام (1)بنتِ ظہور (خانیوال) (2)محمد حماد رضا (کراچی) ، (3)قاسم(کراچی) ، (4)بنتِ سلیم (قصور) ، (5)محمد عثمان (بہاولنگر) (6)شہزاد حنیف(شیخوپورہ) ، (7)غلام مصطفیٰ(گجرات) ، (8)بنتِ وسیم (کراچی) ، (9)بنتِ طیب (پشاور) ، (10)بنتِ محمد ارشد (وہاڑی) (11)بنتِ محمد اسلم (کامونکی) ، (12) محمد طیب عطّاری (راجن پور)۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   ذمہ دار شعبہ فیضانِ اولیاو علما ، المدینۃالعلمیہ کراچی

 

 



([i])   ابنِ ماجہ ، 1 / 150 ، حدیث : 229

([ii])   مراٰۃ المناجیح ، 1 / 220 ، مرقاۃ المفاتیح ، 1 / 516

([iii])   الفروق ، 4 / 303

([iv])   مسلم ، ص1118 ، حدیث : 2722

([v])   مسلم ، ص215 ، حدیث : 537

([vi])   مسلم ، ص311 ، حدیث : 797

([vii])   ترمذی ، 4 / 401 ، حدیث : 2885

([viii])   بخاری ، 2 / 20 ، حدیث : 2101


Share