حضرت سیّدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ

روشن ستارے

 حضرت سیّدُنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ

*   عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ ربیع الاول1442ھ

رَبِّ جلیل کے کلامِ عظیم کا نزول ہوا : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) )   تَرجَمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ ([i])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اسے سُن کر ایک صحابی  رضیَ اللہ عنہ  اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے : میں دوزخیوں میں سے ہوں ، جب چند دن تک وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر نہ ہوئے توسرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے حضرت سعد بن معاذ  رضیَ اللہ عنہ  سے اپنے اسی جاں نثار صحابی کا نام لے کر پوچھا : ان  کا کیا حال ہے؟ کیا بیمار ہیں؟ حضرت سعد  رضیَ اللہ عنہ  نے عرض کی : وہ میرے پڑوسی ہیں ، اگر بیمار ہوتے تو مجھے معلوم ہوتا ، اس کے بعد حضرت سعد  رضیَ اللہ عنہ  ان صحابی کے پاس گئے اور وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا : یہ آیت نازل ہوئی ہے اور تم خوب جانتے ہو کہ میری آواز تم سب سے زیادہ بلند ہے لہٰذا میں جہنمی ہوں ، حضرت سعد  رضیَ اللہ عنہ  نے ان کی بات بارگاہِ رسالت میں پہنچائی تو سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے ارشاد فرمایا : بلکہ وہ جنتی لوگوں میں سے ہیں۔ ([ii]) پیارے اسلامی بھائیو! انتہائی ادب اور خوف کی وجہ سے اپنے گھر بیٹھ جانے والے عظیم اَنصاری خَزرجی صحابی حضرت سیّدُنا ثابت بن قیس رضیَ اللہ عنہ  ہیں۔ بارگاہِ رسالت میں حاضری : آپ  رضیَ اللہ عنہ  کی سماعت کمزور تھی اور اونچا سنتے تھے اسی وجہ سے پسند کرتے تھے کہ مدنی سرکار  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کے قریب رہیں اور سرکارِ کونین کے کلمات سے اپنے کانوں کو تر و تازگی بخشتے رہیں([iii]) آپ سرکارِ نامدار  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کی مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو صحابۂ کرام  رضیَ اللہ عنہم  بھی آپ کیلئے جگہ خالی کردیتے اور  آگے بٹھاتے تھے۔ ([iv]) اعزازات : آپ اکابر صحابہ  رضیَ اللہ عنہم  کی فہرست میں شامل ہیں([v]) آپ کا شمار سرکارِ عالی وقار  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کے کاتبین میں ہوتا ہے([vi]) ایک مرتبہ مدنی آقا  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کا فرمانِ کریم یوں ہوا : ثابت بن قیس کیا خوب مرد ہے۔ ([vii]) عظیم خطیب : آپ کو خطیبِ انصار اور خطیبِ رسول بھی کہا جاتا ہے([viii]) بنو تمیم کا ایک وفد بارگاہِ رسالت مآب میں حاضر ہوا تو ان کے ایک خطیب نے کچھ کاموں کو فخریہ انداز میں بیان کیا یہ دیکھ کر سرکارِ ابد قرار  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے آپ  رضیَ اللہ عنہ  کو خطبہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپ  رضیَ اللہ عنہ  نے کھڑے ہوکر اللہ کریم کی حمد و ثنا کی اور بڑا فصیح و بلیغ خطبہ دیا جسے سُن کر سرکارِ دو جہاں  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  اور مسلمانوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ ([ix]) تکبر کیا ہے؟ حضرت ثابت بن قیس  رضیَ اللہ عنہ  کہتے ہیں : مکی مدنی سرکار  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے آیتِ مبارکہ پڑھی : (اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ(۱۸)) تَرجَمۂ کنزُالایمان :  بے شک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اِتراتا فخر کرتا۔ ([x](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   پھر تکبر اور اس کی بُرائی بیان کی تومیں رونے لگا ، سرکارِوالا تبار  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے وجہ دریافت کی تو میں نے عرض کی : میں خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں یہاں تک کہ جوتی کا اچھا تسمہ بھی مجھے خوش کردیتا ہے (کیا یہ تکبر ہے؟) سرکارِ کائنات کا فرمان لطیف ہوا : تم جنتی ہو ، تکبر یہ نہیں ہے کہ تم اپنی سواری اور کجاوے کو اچھا جانو ، بلکہ تکبر حق سے چشم پوشی اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ ([xi]) ہلاکت کا خوف : ایک مرتبہ آپ نےیوں عرض کی : مجھے اپنی ہلاکت و بربادی کا ڈر ہے ، سرکارِ مکۂ مکرمہ نےپوچھا : ایسا کیوں ہے؟ عرض کی : اللہ پاک نے منع کیا ہے کہ جو کام ہم نے نہیں کیا اس پر اپنی تعریف کو پسند کریں اور میں اپنے دل میں تعریف کو اچھا پاتا ہوں ، اللہ پاک نے اترانے سے روکا ہے حالانکہ میں سجنے سنورنے کو پسند کرتا ہوں ، ہمیں روکا ہے کہ ہماری آواز آپ کی آواز سے بلند ہو اور میں تو بلند آواز والا ہوں ، یہ سُن کر سرکارِ کُل عالَم  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے ارشاد فرمایا : اے ثابت! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ عزت کی زندگی گزارو ، شہادت کا مرتبہ پاؤ اور جنّت میں داخل ہوجاؤ! عرض کی : کیوں نہیں۔ جیسا بارگاہِ رسالت سے ارشاد ہوا ویسا ہی ہوکر رہا لہٰذا آپ نے قابلِ تعریف زندگی گزاری اور آخرکار تمغۂ شہادت سینے پر سجایا۔ ([xii]) دَم کیا ہوا پانی : ایک مرتبہ آپ  رضیَ اللہ عنہ  بیمار ہوئے تو سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  عیادت کے لئے تشریف لائے اور دُعا کی : اے لوگوں کے پروردگار! ثابت سے بیماری دور فرما ، پھر ایک پیالے میں بطحان (نامی وادی) کی مٹی ڈالی اور اس پیالے میں پانی ڈال کر اس پر دَم کیا پھر اس پانی کو آپ کے اوپر چھڑک دیا۔ ([xiii]) میدانِ جنگ : آپ  رضیَ اللہ عنہ  نے غزوۂ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں سرکارِ عزت مآب  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کے ساتھ شرکت کی سعادت پائی۔ ([xiv]) شہادت : حضرت سیّدُنا صدیقِ اکبر  رضیَ اللہ عنہ  نے حضرت سیّدُنا خالد بن ولید  رضیَ اللہ عنہ  کی سربراہی میں معرکۂ یمامہ کو سَر کرنے کے لئے ایک لشکر روانہ فرمایا تو اس میں آپ  رضیَ اللہ عنہ  کو انصار صحابہ پر امیر بنایا۔ ([xv]) اسی میدانِ کارزار میں آپ شربتِ شہادت سے سیراب ہوئے ، یہ جنگ ربیعُ الاوّل سن 12ہجری میں ہوئی تھی۔ ([xvi]) وصیت : اس جنگ میں آپ کے جسم پر ایک بہترین اور عمدہ زرہ تھی آپ  رضیَ اللہ عنہ  نے شہادت کےبعد کسی کے خواب میں آکر فرمایا : میں تمہیں ایک وصیت کررہا ہوں اسے خواب سمجھ کر ضائع نہ کرنا ، میں جس وقت شہید ہوا میرے جسم پر ایک زرہ تھی جسے ایک شخص نے میرے بدن سے اتارا اور اپنے خیمہ کے پاس گھوڑا باندھنے کی جگہ پر پتھر کی ہانڈی کو الٹا کرکے اس کے نیچے اس زرہ کو چھپا دیا پھر اونٹ کا کجاوہ اس کے اوپر رکھ دیا ہے۔ تم امیر لشکر حضرت خالد بن ولید کے پاس جاؤ اور عرض کرو : اس زرہ کو برآمد کر کے اپنے قبضے میں لے لیں پھر جب مدینے جائیں تو امیرُالمؤمنین سے عرض کریں : مجھ پر اتنا اتنا قرضہ  ہے وہ اس کو ادا کردیں اور میرا فلاں غلام آزاد ہے۔  حضرت  خالد بن ولید  رضیَ اللہ عنہ  نے  فوراً اس جگہ کی تلاشی لی اور زرہ برآمد کرلی  پھر بارگاہِ صدیقی میں یہ خواب سنایا تو امیرُالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق  رضیَ اللہ عنہ  نے اس وصیت کو نافذ کرتے ہوئے آپ کا قرض ادا فرما دیا اور آپ کے غلام کو آزاد قرار دے دیا۔ ([xvii]) حضرت انس بن مالک  رضیَ اللہ عنہ  فرماتے ہیں : ہمارے علم میں حضرت ثابت  رضیَ اللہ عنہ  کےعلاوہ کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس کے مرجانے کے بعد خواب میں کی ہوئی اس کی وصیت کو نافذ کیا گیا ہو۔ ([xviii])

بعدِ شہادت : جب آپ کو قبر میں رکھا گیا تو لوگوں نے آپ سے یہ کلمات سنے : محمد اللہ کے رسول ہیں ، حضرت ابو بکر صدیق ہیں ، حضرت عمر شہید ہیں ، حضرت عثمان نرم دل اور مہربان ہیں ، لوگوں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ  رضیَ اللہ عنہ  میں زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ ([xix])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   مُدَرِّس مرکزی جامعۃالمدینہ ،  عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی



([i])    پ26 ، الحجرات : 2

([ii])   مسلم ، ص70 ، حدیث : 314ملخصاً

([iii])   تفسیر کبیر ، 10 / 493 ، پ28 ، المجادلہ تحت الایۃ : 11

([iv])   خازن ، 4 / 181 ، پ26 ، الحجرات تحت الایۃ : 11

([v])   زرقانی علی الموطأ ، 3 / 254 ، تحت الحدیث : 1228

([vi])   مدارج النبوۃ ، 2 / 533

([vii])   ترمذی ، 5 / 437 ، حدیث : 3820

([viii])   تھذیب الاسماء ، 1 / 147 ، خطیب بمعنی فصیح تاریخ دان عالمِ انساب ہے۔ مراٰۃ المناجیح ، 8 / 519

([ix])   سیر اعلام النبلاء ، 3 / 194

([x])   پ21 ، لقمٰن : 18

([xi])   معجم کبیر ، 2 / 69 ، رقم : 1318

([xii])   مستدرک ، 4 / 253 ، حدیث : 5084ملخصاً

([xiii])   ابو داؤد ، 4 / 14 ، حدیث : 3885

([xiv])   استیعاب ، 1 / 276

([xv])   عمدۃ القاری ، 10 / 161 ، تحت الحدیث : 2845

([xvi])   مستدرک ، 4 / 253 ، حدیث : 5084 ، عمدۃ القاری ، 10 / 161 ، تحت الحدیث : 2845

([xvii])   استیعاب ، 1 / 277 ملخصاً

([xviii])   استیعاب ، 1 / 276

([xix])   تاریخ ابن عساکر ، 39 / 220


Share