آخر درست کیا ہے؟
جرائم کی صورت ِ حال پر ہمارے قومی رویے اور حقیقی حل(قسط : 01)
* مفتی محمد قاسم عطاری
ماہنامہ ربیع الاول1442ھ
ہمارے ملک میں جرائم کی صورتِ حال جس قدر بَد سے بدتر ہوتی جارہی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ صرف ایک دن کے اخبارات کا جرائم والا صفحہ پڑھ لیں تو یوں لگتا ہے کہ شاید ہماری قوم تباہی کے گڑھے میں گِرنے کی پوری کوشش کررہی ہے اور یہ وہ جرائم ہیں جو میڈیا میں رپورٹ ہوگئے ورنہ جو اخبارات تک پہنچے ہی نہیں ان کی تعداد تو کئی گُنا زیادہ ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھار اگر کوئی بہت سنگین جرم ہوجائے تو اس پر اخبارات و میڈیا و عوام میں بہت شور برپا ہوجاتا ہے لیکن چند دن بعد سب کچھ ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ ہر بڑے اور مشہور جرم پر ہونے والی جذباتی بحثوں سے یوں لگتا ہے جیسے اب دوبارہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوگا لیکن کچھ ہی دنوں بعد پہلے سے بھی بڑا واقعہ پیش آجاتا ہے اور پھر وہی پرانی مشق و تکرار شروع ہوجاتی ہے۔
ایسے مواقع پر حقیقی اسباب پر نظر کرکے صحیح حل نکالنے کی بجائے جس قسم کی گفتگو اور تحریرات دیکھنے سننے کو ملتی ہیں وہ کچھ یوں ہیں کہ اولاً تو سیکولر ، لبرل سوچ کے لوگ علماء اور دینی تعلیم کے خلاف اپنی منفی سوچ کا پرچار کرنے کے لئے دین اور دینی اداروں کو طعن و تشنیع کا ذریعہ بنالیتے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اتنی مساجد ، مدارس ، خانقاہیں ، حج و عمرہ کے معمولات ، پیری مریدی کے سلسلے اور مذہبی جلسے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ملک میں جرائم کی حالت بہت گھمبیر ہے۔ پھر سیکولر لوگ اس خود ساختہ تقریر کا یہ مطلب نکالتے ہیں کہ دین اور دینی چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں اور اس سے معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، لہٰذا انہیں ختم کردینا چاہئے۔
اس طرح کا کلام خلطِ مبحث ، غیر منطقی استدلال ، غیر معقول سوچ اور دین داروں سے تعصب و نفرت کے سوا کچھ نہیں۔ ہم یہی سوال دوسرے انداز میں پوچھ لیتے ہیں کہ جناب ، ہمارے ملک میں مساجد ، مدارس ، خانقانوں سے زیادہ اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیاں ہیں اور مدارس کے طلبہ سے کئی سو گنا زیادہ طلبہ اسکولوں کالجوں میں پڑھتے ہیں ، یونہی ملک میں محض وعظ و نصیحت کا اختیار رکھنے والے علماء و مشائخ سے زیادہ تعداد میں بااختیار ، طاقت ور ، قانون نافذ کرنے کی اتھارٹی رکھنے والی پولیس ہے۔ ان سب کے باوجود ملک میں اتنے جرائم کیوں ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسکول ، کالج ، یونیورسٹیاں ، پولیس اور ادارے سب بے کار ہیں لہٰذا انہیں ختم کردینا چاہئے۔ اگر اِس کا جواب “ نہ “ میں ہے تو پھر اوپر کا جواب بھی “ نہ “ میں ہے۔
ملک میں جو بھلائی ، خیرخواہی ، دیانت داری ، حلال و حرام کی تمیز ، اچھے برے کا لحاظ ، خوفِ خدا اور شرم و حیا ہے اس کا زیادہ تر حصہ مساجد و مدارس کی تعلیم ہی کے سبب ہے۔ اسی لئے مساجد و مدارس سے تعلق رکھنے والے معاشرے میں کرپشن اور جرائم میں بہت کم ملوث ہوتے ہیں جبکہ بقیہ جگہوں کے تعلیم یافتہ کرپشن اور جرائم کے جو ریکارڈ قائم کرتے رہتے ہیں وہ آئے دن ٹی وی اسکرین اور اخباری صفحات کی زینت یا کالَک بنتے رہتے ہیں۔
سنگین اخلاقی اور جنسی جرائم کے وقوع پر دوسرا طرزِ عمل دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اِن جرائم کے اصل محرِک اورسبب کو ہر کوئی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ نفسانی خواہشات ابھارنے ، سوچوں میں غلاظت بھرنے اور جنسی خیالات بھڑکانے والی چیزیں ہی جنسی جرائم کی سب سے بڑی وجہ ہیں جنہیں پھیلانے کا سب سے بڑا سبب بے شرمی ، بے حیائی ، عریانی ، فحاشی سے لتھڑے اخبارات ، تصاویر ، اشتہارات ، سائن بورڈز ، پروگرامز ، میگزین اور فلمیں ، ڈرامے ہیں لیکن چونکہ اخبارات میں لکھنے والوں اور ٹی وی پر بولنے اور میڈیا چلانے والوں کی روزی روٹی اِنہی جگہوں پر یا اِنہی کاموں سے ہے اور اس کے علاوہ اِن پر سیکولرازم ، لبرل ازم اور آزادی و روشن خیالی کابھوت سوار ہے اس لئے کبھی بھی ان لوگوں کی زبان پر اصل اسباب کا بیان نہیں آئے گا بلکہ یہ لوگ اُلٹا اِدھر اُدھر کے الفاظ کی جُگالی ، بے ربط باتوں اور غیر متعلقہ دلائل سے حقیقی وجوہات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ مثال کے لئے ایسے چند افلاطونوں کے الفاظ و دلائل آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ایک صاحب جنسی جرائم پر لکھتے ہوئے کہتے ہیں : “ زمین کا درجۂ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے ، قطبین کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے ، سمندر میں تلاطم آ رہا ہے اور ہم ان مسائل کی بجائے عورت کا جسم یا چہرہ ڈھکنے کے احکام میں پڑے ہوئے ہیں۔ “ گویا جناب کے نزدیک بے حیائی پھیلتی رہے ، بدکاریاں ہوتی رہیں اور شاہراہ عام پرجبری و اجتماعی زیادتیاں ہوتی رہیں لیکن پھر بھی پردے اور شرم و حیا کی بات نہ کی جائے بلکہ وہی طوفانِ بادوباراں اور قطبی جنوبی و شمالی کی سیر پر غور کرتے رہیں۔
ایک دوسرے صاحب لکھتے ہیں “ ہمارے جیسے ملک میں جہاں صبح شام نفس کو قابو میں رکھنے اور بےحیائی و عریانی کے خلاف اور گناہوں سے تائب رہنے کی دُعائیں ہر وقت مانگی جاتی ہوں وہاں یہ جنسی وحشت ، مذہبی انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ کیوں پھیل رہی ہے۔ اس کا جواب شاید دقیانوسی ٹوٹکوں اور جھوٹے مذہبی عطائیوں کے پاس نہ ہو۔ “ یعنی موصوف ، خیالات میں گندگی ، نگاہوں میں ناپاکی پیدا کرنے اور ناجائز تعلقات قائم کرنے کے طریقے سکھانے والے ڈراموں کی بجائے الٹا بے حیائی روکنے کی خاطر جہاد کرنے والے کے خلاف لکھ رہے ہیں ۔ پھر قربان جاؤں کہ حل کیا پیش کیا ہے ، لکھا ہے کہ “ ہم ماہرینِ نفسیات و سماجیات و بشریات سے اس کے عوامل اور وجوہات کا ضرور پتا لگا سکتے ہیں اور ہماری ایسی خاندانی ، ریاستی ، انسانی ، جبلی ، معاشرتی اور علمی وجوہات اور کجرویوں اور گمراہیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جن سے افاقہ پاکر ہم ایک صحت مند انسان بن سکتے ہیں۔ “ گویا کامل دین اسلام ، خدا کے قرآن ، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان ، خالقِ کائنات کی دی ہوئی آخری شریعت اور ان کے جاننے والوں سے کوئی رہنمائی نہیں ملے گی بلکہ اُن ماہرینِ نفسیات وغیرہا سے حل ملے گا جن کی زبانوں پر بھول کر بھی کوئی آیت ، حدیث اور دین کی بات نہ آتی ہو۔
ایک اورصاحب بے ربط دلائل کےدریا یوں بہاتے ہیں : “ ہمیں جبری زیادتی ختم کرنے کےلئے وہ مائنڈ سیٹ ختم کرنا ہوگا جو کہتا ہے کہ عورت رات کو گھر سے باہر کیوں نکلی ، اُس کے کپڑے ٹھیک نہیں تھے ، وہ کسی دوست کے ساتھ فلم دیکھنے کیوں گئی ، یہ عورتیں گھر کیوں نہیں بیٹھتیں ، مردوں کی طرح بےشرمی کی باتیں کیوں کرتی ہیں ، وغیرہ۔ “ یعنی جناب یہ کہہ رہے ہیں کہ “ جبری زیادتیاں تب ختم ہوں گی جب عورت کو رات میں گھر سے باہر نکلنے ، عریانی والے لباس پہننے ، رات کو فلمیں دیکھنے ، دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنے ، گھر سے اپنی مرضی سے جہاں چاہے جانے اور بے شرمی کی باتیں کرنے کی کھلی اجازت ہوگی۔ “ کیا کمال کے دلائل ہیں! الامان والحفیظ ، اسے کہتے ہیں کہ “ ماروں گھٹنا ، پھوٹے آنکھ “ یا “ سوال گندم ، جواب چنا “ ۔ یہ علاج اُس قسم کے جاہل ، اَن پڑھ اور عطائی ڈاکٹر کا ہے جس نے بیماریوں کا علاج یوں بتایا کہ شوگر ، بلڈپریشر ، امراضِ قلب اور پتھری کی بیماریاں تب ختم ہوں گی جب شوگر والے کو روزانہ مٹھائی کھانے ، بلڈ پریشر والے کو روزانہ بیف کڑاہی کھانے ، دل کے مریض کو دیسی گھی کے پراٹھے اور سری پائے کھانے ، پتھری کے مریض کو دو وقت چاول کھانے کی اجازت دی جائے گی اور اِس سے منع کرنے والے مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا ہوگا۔ (جاری ہے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* دارالافتاء اہلِ سنّت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments