اپنا انداز بدلئے

ماں باپ کے نام

اپنا انداز بدلئے

* مولانا آصف جہانزیب عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2022

 اپنی اولاد سے سب ہی والدین کو محبت ہوتی ہے ،  ان کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ ان کا بچّہ معاشرے کا بہترین فرد بنے اور اس کے لئے وہ اپنے حساب سے تربیت کی کوشش بھی کرتے ہیں ،  لیکن اس کوشش میں بھی والدین کچھ ایسے انداز اپناتے ہیں جن کا بچوں کی شخصیت پر غلط اثر پڑتا ہے۔  والدین کو اپنے ان جملوں اور انداز میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے ۔  

ہر بات پر شاباشی دینا :

جب بچّے کوئی نئی بات سیکھتے ہیں یا کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو عموماً والدین بچّوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے ان کی ہر کامیابی پر ہی انہیں شاباش دیتے نظر آتے ہیں ،  جبکہ ماہرین کہتے ہیں اس طرح بچّہ تعریف کا محتاج بن جاتا ہے جو آگے چل کر اس کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے ،  چنانچہ بچوں کی کامیابی پر ان کی حوصلہ افزائی ضرور کریں لیکن بہت مبالغے سے پرہیز کریں اور احتیاط رکھیں کہ کہیں بچے ہر بار صرف شاباش ہی کے محتاج نہ بن جائیں۔

تم نے یہ کیا کر دیا :

عموماً بچّے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھر پور محنت کر رہے ہوتے ہیں  ،  کوئی ڈرائنگ بنانی ہو ،  یا پھر کوئی ٹیسٹ یاد کرنا ہو۔  اگر بچے سے ان معاملات میں کوئی غلطی ہوجائے یا کمی رہ جائے تو فورا ً یہ کہہ دینا کہ” تم نے ڈرائنگ صحیح نہیں بنا ئی  ،  یا ٹیسٹ یاد نہیں کیا یا تم نے یہ کیا کردیا   “  اس طرح کے جملوں سے اس کا حوصلہ بھی ٹوٹ سکتا ہے اور وہ احساسِ کمتری کا شکار بھی ہوسکتا ہے  ، اس کے بجائے اس کی محنت کی تعریف کرتے ہوئے اسے مزید محنت کی ترغیب دلائیں مثلاً آپ اس طرح کہہ سکتے ہیں مَاشآءَ اللہ !  آپ نے اچھی کوشش کی ہے بس تھوڑا سا کلر اور بہتر ہونا چاہئے تھا ۔   “ 

 جلدی کرو :

بچّے اپنے کام کرتے ہیں اور اپنی رفتار سے کرتے ہیں  ،  اگر ان پر ذہنی دباؤ بڑھ جائے تو کام خراب بھی ہو سکتا ہے اور وہی کام لیٹ بھی ہو سکتا ہے ،  مثال کے طور پر بچہ ہوم ورک کر رہا ہے لیکن آپ چاہتے ہیں کہ وہ جلدی کام ختم کر لے تا کہ آپ صفائی کرلیں  ،  اس وقت اگر”آپ جلدی کام مکمل کرنے کی رٹ لگائیں گے  “  تو بچے پر ذہنی دباؤ بڑھ جائے گا اور اس کا ہوم ورک خراب ہونے کا بھی امکان ہے ،  لہٰذا ”جلدی کرو جلدی کرو  “   کی تکرار کے بجائے مثبت انداز اختیار کیا جا سکتا ہے مثلا ً آپ یوں کہہ سکتے ہیں ”دیکھتے ہیں آپ 15 منٹ میں ہوم ورک مکمل کرسکتے ہیں یا نہیں  “   اس طرح بچہ خوشی خوشی کام مکمل کرنے کی کوشش کرے گا اور آپ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ۔

پیسے نہیں ہیں :

بچّے عموماً فرمائشیں کرتے رہتے ہیں ،  ان کی فرمائشوں پر اگر آپ اکثر یہ کہتے ہیں کہ”بیٹا ابھی پیسے نہیں ہیں   “   تو یہ جملے بچّے میں احساسِ کمتری کا سبب بن سکتے ہیں ،  اس طرح کے جملوں کے بجائے انہیں دیگر ضروری اخراجات کی جانب توجّہ دلادی جائے تاکہ جھوٹ بھی نہ ہو اور بچوں میں اپنی خواہشات کی بجائے گھریلوضروریات کا احساس بھی بیدار ہو۔  اس طرح بچے احساسِ کمتری سے محفوظ رہیں گے اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ گھریلو ضروریات پہلے ہیں خواہشات بعد میں۔

یہ چند مثالیں ہیں ،  اگر والدین اپنا جائزہ لیں گے تو انہیں اور بھی بہت سی باتیں نظر آجائیں گی جن میں تبدیلی کی ضرورت ہو گی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ،  شعبہ بچوں کی دنیا(چلڈرنز لٹریچر) المدینۃ العلمیہ ،  کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code