تفسیر قراٰنِ کریم
مخلوق ِ خداپر مہربان ہوجائیں
* مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی 2022
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ ترجمہ : اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ۔ (پ9 ، الاعراف : 156) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) تفسیر : خداوندِ قدوس کی صفات لامتناہی ہیں ، مخلوق ان کا شمار نہیں کرسکتی ۔ تمام شانوں کا علم صرف خدا کو ہے جبکہ قرآن و حدیث میں جتنی صفات مذکور ہیں وہ اہلِ علم جانتے ہیں اور ان کے علاوہ بہت سی شانوں پر اہلِ معرفت و اصحابِ باطن مطلع ہیں ، لیکن کچھ صفات ایسی ہیں جن سے مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہے جیسے اللہ تعالیٰ خالق ہے ، رازق ہے ، مالک ہے ، پالنے والا ہے ، زندگی موت دینے والا ہے ۔
ان مشہور صفات میں سے اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت بھی ہے کہ ہمارا پاک پروردگار رحمٰن و رحیم یعنی نہایت مہربان ، بہت رحمت والا ہے ۔ یہ دونوں صفات مخلوق کی زبانوں پر اس قدر جاری ہیں کہ مسلمان کو ہر اچھے کام سے پہلے بسم اللہ شریف پڑھنے کا حکم ہے اور بسم اللہ میں اللہ تعالیٰ کی یہی دو صفات یعنی رحمٰن و رحیم کا ذکر ہے ، یونہی ہر نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور سورۂ فاتحہ کے شروع میں ان دو صفات کا ذکر موجود ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی صفت بہت کثرت سے مختلف انداز میں بیان فرمائی ہے ، چنانچہ ایک جگہ فرمایا : نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ(۴۹)ترجمہ : میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں ۔ (پ14 ، الحجر : 49) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) دوسری جگہ فرمایا : وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ- ترجمہ : اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ۔ (پ9 ، الاعراف : 156) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور تیسری جگہ فرمایا : قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳) ترجمہ : تم فرماؤ : اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے ۔ (پ24 ، الزمر : 53) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) شانِ رحمت اللہ تعالیٰ کو اس قدر محبوب ہے کہ اس نے اپنے حبیب ، حضور سید العالمین ، محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو شانیں عطا فرمائیں ان میں نہایت نمایاں ، شانِ رحمت ہے چنانچہ فرمایا : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجمہ : اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔ (پ17 ، الانبیآء : 107) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اسی شانِ رسالت کو دوسری جگہ ایک اور خوبصورت انداز میں یوں بیان فرمایا : لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے ، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مسلمانوں پر بہت مہربان ، رحمت فرمانے والے ہیں ۔ (پ11 ، التوبۃ : 128) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رحمت و رافت کا پیکر بنا کر اللہ تعالیٰ نے خود محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فرمایا کہ آپ کے اخلاق کی عظمت ، طبیعت کی خوبی ، مزاج کی نرمی ، شفقت کی فراوانی ، عفو و درگز کی خُو ، حلم و تحمل کی خصلت سب فضل و رحمتِ خداوندی کا نتیجہ ہیں ۔ اسی رب کریم نے اپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شفیق و کریم اور رءوف و رحیم بنایا ، چنانچہ فرمایا : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪- فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ-ترجمہ : تو اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے تو آپ ان کو معاف فرماتے رہو اوران کی مغفرت کی دعا کرتے رہو اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو ۔ (پ4 ، اٰل عمرٰن : 159) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) حضور خاتم النبیین ، رحمۃ للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خدا کی وہ رحمت و نعمت بن کر تشریف لائے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کو دوست بنادیا ، دلوں کی نفرتوں کو مٹادیا ، روٹھے ہوؤوں کو منا دیا ، بچھڑوں کو ملا دیا ، خون کے پیاسوں کو ایثار کا پیکر بنا دیا ، جنگ و جدل کے خُوگروں کو آپس میں بھائی بھائی میں تبدیل کردیا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا : وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًاۚ- ترجمہ : اوراللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے ۔ (پ4 ، اٰل عمرٰن : 103) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) خدا کا پیارا کلام قرآنِ مجید بھی رحمت کی صورت میں تشریف لایا ، چنانچہ فرمایا : یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۵۷)ترجمہ : اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا اور مومنوں کیلئے ہدایت اور رحمت آگئی ۔ (پ11 ، یونس : 57) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) رسول ِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابۂ کرام بھی انوارِ نبوت سے فیضیاب ہوکر ہدایت و رحمت کے روشن مینار بن گئے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ترجمہ : (نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ) آپس میں نرم دل ہیں ۔ (پ26 ، الفتح : 29) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) الغرض دینِ اسلام میں رحمت ، شفقت ، نرمی ، محبت ، عفو و درگزر ، حلم و تحمل بہت پسندیدہ خوبی ہے اور اسے رنگ رنگ سے قرآن مجید میں بیان فرمایا ۔ لوگوں کو اس کی عظمت و افادیت بتاتے ہوئے فرمایا : وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۠(۴۳)ترجمہ : اور بیشک جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے ۔ (پ25 ، الشورٰی : 43) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور نرمی و عفو کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ(۳۴) ترجمہ : برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی ہوگی وہ اس وقت ایسا ہوجائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے ۔ (پ24 ، حٰمٓ السجدۃ : 34) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) پھر اسی رحمت و شفقت والے سلوک کے مستحقین اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار بیان فرمائے : وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا ترجمہ : اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ (اچھا سلوک کرو) اور لوگوں سے اچھی بات کہو ۔ (پ1 ، البقرۃ : 83) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) محبت و شفقت کے رویے میں جہاں سب سے زیادہ کوتاہی ہوتی ہے(یعنی بیویوں کے بارے میں) وہاں اللہ تعالیٰ نے تاکید بھی سب سے زیادہ فرمائی ہے ، چنانچہ فرمایا : وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚفَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا(۱۹) ترجمہ : اور بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو پھر اگر تمہیں وہ ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے ۔ (پ4 ، النسآء : 19) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)اور ایک جگہ فرمایا : فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا(۳۴)ترجمہ : پھر اگر بیویاں تمہاری اطاعت کریں تو (اب) ان پر (زیادتی کرنے کا) راستہ تلاش نہ کرو ۔ بیشک اللہ بہت بلند ، بہت بڑا ہے ۔ (پ5 ، النسآء : 34) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) دوسروں کے لئے کس قدر رحمت بن کر رہیں اورآسانی و مہربانی کا خیال زندگی میں کس حد تک رکھا جائے ، اس کا اندازہ قرآن مجید کی اِس خوب صورت تعلیم سے لگائیں کہ زندگی کی عام مجلس و محفل کے متعلق فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْۚ ترجمہ : اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے (کہ) مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو جگہ کشادہ کردو ، اللہ تمہارے لئے جگہ کشادہ فرمائے گا ۔ (پ28 ، المجادلۃ : 11) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یعنی آپ کسی مجلس میں بیٹھے ہوں اور کوئی دوسرا شخص آجائے تو اس کے لئے جگہ کشادہ کردیں ، دوسروں کے لئے آسانی پیدا کرنے کا یہ معمولی سا کام بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس قدر پسندیدہ ہے کہ فرمایا ، تم دوسروں کے لئے جگہ کشادہ کرو ، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے جنت میں جگہ کشادہ فرما دے گا۔ اللہ اکبر و سبحان اللہ والحمد للہ علٰی فضلہ و کرمہ ورحمتہ و رافتہ ۔
مخلوقِ خدا پرمہربانی میں سب سے پہلا اور ضروری درجہ یہ ہے کہ انہیں بلاوجہ تکلیف نہ پہنچائی جائے ، کسی کا دل نہ دکھائیں ، کسی کو گالی نہ دیں ، بہتان نہ لگائیں ، غیبت نہ کریں ، عیب تلاش نہ کریں ، الفاظ و افعال سے دوسروں کو نہ ستائیں ، شور شرابہ ، گندگی ، کھیل ، عزت و ناموس پر حملہ وغیرہ کے ذریعے کسی کو تکلیف نہ دیں ۔ مہربانی کا یہ درجہ فرض کا حکم رکھتا ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے : وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) ترجمہ : اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بغیر کچھ کئے ستاتے ہیں توانہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھالیا ہے ۔ (پ22 ، الاحزاب : 58) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)تمام کلام کا خلاصہ اور درس یہ ہے کہ جب ہمارا پاک پروردگار ، رحمٰن و رحیم ہے ، ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، رحمۃ للعالمین ہیں ، ہمارا قرآن ، منبعِ رحمت ہے ، ہمارا دین ، سراسر رحمت ہے ، اسلام کی تعلیم رحمت ہے ، ہمیں رحمت و شفقت کا حکم ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ یہ نرمی ، شفقت ، محبت ، مہربانی ، رحمت ، رافت ، کشادہ دلی ، وسعتِ قلبی ، عفو و درگزر ، مسکراہٹ ، خوش اخلاقی ، ملنساری ، دوسروں کا خیال رکھنا اور کسی کو تکلیف نہ دینے کے اعلیٰ اخلاقی اوصاف و عادات ہمارے معاشرے میں انتہائی نچلے درجے تک پہنچے ہوئے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نفرت ، عداوت ، سختی ، شدت ، غصہ ، کینہ ، حسد ، چہرے کے بے جان تأثرات ، کاٹ کھانے کو دوڑنے کا روَیَّہ ، شور شرابے سے پڑوسیوں کو تکلیف دینا ، گلیوں میں اور سڑکوں پر دوسروں کے حقوق برباد کرنا ، گھروں میں کشیدہ ماحول اور عام زندگی میں بیزاری عام ہے؟ آخر کیوں؟ آخر کیوں؟ اے کاش کہ ہم سچے مسلمان بن جائیں ، اپنے مالک ِ حقیقی عزوجل کی صفات کے انوار خود میں اتاریں ، اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتِ رحمت و رافت اپنا لیں ، اولیاء کرام رحمہم اللہ السّلام کے دل کش اخلاق کی اتباع کریں ، مخلوقِ خدا کا بھلا کریں اور دوسروں کا خیال رکھنا شروع کردیں ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments