آخر درست کیا ہے؟
کیا کافر جنتی یا ولی ہوسکتا ہے؟(قسط : 2)
* مفتی محمد قاسم عطاری
ماہنامہ مئی 2021
جب کافروں کے اعمال باطل ہیں تو وہ اعمال قیامت کے دن برباد کرکے ایسے بے وقعت کر دئیے جائیں گے جیسے دھوپ کی کرن میں نظر آنے والے ذرات بے قدر و بے وزن ہوتے ہیں ، چنانچہ فرمایا : ( وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(۲۳) )ترجمہ : اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح بنادیں گے جو روشن دان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں۔ (پ19 ، الفرقان : 23) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
کافروں کے اعمال اُس راکھ کی طرح ہوں گے جنہیں اُن کے کفر اور اس پر غضبِ خدا کی آندھی اڑا کر بے نام و نشان کردے گی اور جس راکھ سے کچھ بھی حاصل نہ ہو ، قرآن میں فرمایا : ( مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِ ﹰ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ(۱۸) ) ترجمہ : اپنے رب کا انکار کرنے والوں کے اعمال راکھ کی طرح ہوں گے جس پر آندھی کے دن میں تیز طوفان آجائے تو وہ اپنی کمائیوں میں سے کسی شے پر بھی قادر نہ رہے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔ (پ13 ، ابراھیم : 18) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
کافروں کے جن اعمال کو خود وہ کافر یا آج کل کے لبرل (Liberal) بہت کچھ سمجھتے ہیں اور اس پر یہ لبرل اُن کافروں کو خود ہی جنت کی ڈگری تھمانے کی کوششیں کرتے ہیں ، ان اعمال کے بارے میں خدا فرماتا ہے کہ وہ صحرا کے سراب کی طرح ہے جو دیکھنے میں پانی لگتا ہے لیکن حقیقت میں پانی کا ایک قطرہ نہیں ہوتا ، ایسے ہی کافروں کے اعمال دیکھنے میں تو بہت قابلِ قدر نظر آتے ہیں لیکن آخرت کے صلہ کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا : ( وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗؕ-وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِۙ(۳۹)) ترجمہ : اور کافروں کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی بیابان میں دھوپ میں پانی کی طرح چمکنے والی ریت ہو ، پیاسا آدمی اسے پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا اور وہ اللہ کو اپنے قریب پائے گا تو اللہ اسے اس کا پورا حساب دے گا اور اللہ جلد حساب کرلینے والا ہے۔ (پ18 ، النور : 39) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
کفار کے اعمال کے متعلق آخرت میں اچھا صلہ ملنے کی غلط فہمیاں پالنے والوں کو بہت ہی واضح اور دو ٹوک الفاظ میں سمجھا دیا گیا کہ جن اعمال کی انجام دہی پر یہ خوش ہورہے ہیں اور جنہیں بہت کچھ سمجھ رہے ہیں ، یہ محض ان کے خیالات اور خوش فہمیاں ہیں ، خدا کا قانون بہت واضح ہے کہ جب عمل کرنے والا خدا کی کتاب ، قرآن اور آخرت کو مانتا ہی نہیں تو ان کے سب اعمال برباد ہیں اور بروزِ قیامت میزانِ عمل میں ان کا وزن کوئی معمولی سی حیثیت بھی نہیں رکھے گا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ(۱۰۳) اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا(۱۰۴) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآىٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵)) ترجمہ : کیا ہم تمہیں بتادیں کہ سب سے زیادہ ناقص عمل والے کون ہیں؟ وہ لوگ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی حالانکہ وہ یہ گمان کررہے ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا تو ان کے سب اعمال برباد ہوگئے پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (پ16 ، الکھف : 103تا 105) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
دنیا میں جن اعمال کےلئے دن رات محنت کرکے مشقتیں اٹھائیں ، اُن اعمال کی حیثیت تو یہ تھی کہ اگر خدا و آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے خدا کی رضا پانے کے لئے کرتے تو دل چین اور راحت میں ہوتے ، لیکن خدا و رسول و آخرت پر ایمان مسترد کرنے ، کفر پر اَڑے رہنے اور خدا کے سامنے جھکنے کو اپنی توہین سمجھنے کی وجہ سے ساری مشقتیں رائیگاں جائیں گی اور کفر کی سزا کے طور پر قیامت میں رُسوا ہوں گے اور بالآخر جہنم میں جائیں گے ، چنانچہ قرآن میں فرمایا : ( وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ خَاشِعَةٌۙ(۲) عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ(۳) تَصْلٰى نَارًا حَامِیَةًۙ(۴) )ترجمہ : بہت سے چہرے اُس دن ذلیل و رسوا ہوں گے۔ کام کرنے والے ، مشقتیں برداشت کرنے والے ، بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔ (پ30 ، الغاشیۃ : 2تا 4) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
آیات طیبات کے بعد اِسی موضوع پر ایک حدیث مبارک بھی ملاحظہ فرمائیں : حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ابنِ جُدعان نامی شخص جو زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا ، کیا اُسے یہ اعمال فائدہ دیں گے؟ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اُس کے اعمال اسے فائدہ نہیں دیں گے ، کیونکہ اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ “ اے میرے رب! قیامت کے دن میرے گناہ کو بخش دے۔ “ (مسلم ، ص111 ، حدیث : 518)
امام نووی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : معنی یہ ہے کہ ابن جُدعان کے کافر ہونے کی وجہ سےاس کے اعمال اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گے ، قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ : “ اس بات پر پوری امت کا اتفاق و اجماع ہے کہ کفار کو ان کے اعمال فائدہ نہیں دیں گے ، اور نہ ہی اُن اعمال پر انہیں کسی قسم کا ثواب ملے گا ، اور نہ ہی ان کی وجہ سے عذاب میں کمی کی جائےگی ، اگرچہ کچھ کفار کو دیگر کفار کی بہ نسبت ان کے جرائم کے اعتبار سے کم یا زیادہ عذاب ملے گا۔ “ (شرح النووی علی الصحیح لمسلم ، 3 / 87)
شبہات اور وساوس کی سب سے بڑی وجہ : دہریے (Atheists) یا مسلمان کہلانے والے لبرلز (Liberals) سب سے بڑا اعتراض ، شبہ یا وسوسہ یہ پیش کرتے ہیں کہ جب ایک شخص نے بہت اچھے کام کئے ، انسانیت کی خدمت کی ، کسی مُہلِک مرض کی دوا ایجاد کی ، کوئی ویکسین(Vaccine) بنائی ، کوئی عظیم کارنامہ سرانجام دیا یا تحقیق و تدقیق میں زندگی گزار دی ، تو اب صرف مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے اسے عذاب کیوں؟ اور وہ صلہ و جزا سے محروم کیوں؟
اس کا سب سے پہلا جواب : ہر مومن کے ایمان کے اعتبار سے یہ ہے کہ ہمارا اپنے رب کے فضل اور عدل پر ایمان ہے ، (فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶))(جو چاہے کرنے والا ہے) (پ30 ، البروج : 16) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اُس کی شان ہے ، (لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ(۲۳)) (خدا سے اس کے کاموں کے بارے میں سوال نہیں کیا جاسکتا اور بندوں سے سوال ہوگا) (پ17 ، الانبیاء : 23) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اُس کا فرمان ہے۔ خدا نے جو قرآن میں فرمایا اور قیامت میں جو فیصلہ فرمائے گا ، ہم بغیر کسی شک و شبہ کے اس پر دل و جان سے اس کے حق ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔
دوسرا جواب یہ ہے : کافر کے کارنامے یا انسانیت کی خدمت اپنی جگہ لیکن اسے عذاب کارناموں کی وجہ سے نہیں بلکہ کفر کی وجہ سے ہوگا ، لہٰذا دونوں کو آپس میں خلط ملط نہ کیا جائے۔ یہ قانون بالکل برحق ہے ، مثلاً خدمتِ انسانیت کا بہت بڑا کارنامہ سرانجام دینے والا اگر کسی کو قتل کردے ، یا کسی کا مال چھین لے ، یا رشوت لیتا پکڑا جائے یا ملکی قوانین توڑے تو اسے سزا دی جائے گی یا یہ انسانیت والا کارنامہ دیکھ کر چھوڑ دیا جائے؟ بالکل واضح ہے کہ کارنامہ اپنی جگہ ، لیکن جرم کی سزا ضرور ملے گی۔ یہی معاملہ خدائی احکام کا ہے کہ خدا نے کفر و شرک اور دہریت کو جرم قرار دیا۔ خدا کا وجود کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے ، خداوند قُدُّوس کائنات کا خالق اور جملہ نعمتیں عطا کرنے والا ہے ، وہی سب سے بڑا حاکم ہے اور اس کے وجود کو ماننا ، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا ، اس کے احکام و قوانین کی حسبِ درجہ پابندی کرنا فرض و لازم ہے۔ اب جو شخص اِس حقیقت کو تسلیم کرنے سے اِنکاری ہے ، مخلوق ہوکر خالق کے وجود کا منکر ہے ، دنیا جہان کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے باوجود ، نعمتیں دینے والے خدا کے ساتھ ناشکری ، بے وفائی اور غداری کا مرتکب ہے ، سب سے بڑے حاکم کے آگے سرکش اور باغی ہے ، زمین پر بیٹھ کر چاند ، سورج اور سیاروں پر تحقیق کا وقت تو اُسے مل گیا ، مریخ پر مشینیں بھیجنے کی تو فرصت تھی لیکن اِن سب کے خالق کے متعلق تحقیق کرنے ، اس پر ایمان لانے اور اس کی بندگی کرنے کا وقت نہیں تھا ، تو ایسوں کے تمام تر انسانی کارناموں کے باوجود اِنہیں اُن کے جرم کی وہ سزا ضرور ملے گی جو قرآن اور آسمانی کتابوں نے کھول کھول کر ہزاروں مرتبہ بیان کردی تھی۔ (بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دار الافتاء اہلِ سنّت فیضانِ مدینہ کراچی
Comments