عورت کا مسجدِ بیت میں نفلی اعتکاف کرنا کیسا؟

اسلامی بہنوں کے شرعی مسائل

ماہنامہ مئی 2021ء

عورت کا مسجدِ بیت میں نفلی اعتکاف کرنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ رمضان المبارک کی برکات پانے کے لئے عورت اپنی مسجدِ بیت میں نفلی اعتکاف کر سکتی ہے؟سائل : نعمان عطاری (لطیف آباد نمبر10)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

رمضان المبارک میں اور اس ماہِ مبارک کے علاوہ بھی عورت اپنی مسجدِ بیت میں نفلی اعتکاف کر سکتی ہے۔ چنانچہ طحطاوی علی المراقی میں ہے : “ وللمراۃ الاعتکاف فی مسجد بیتھا ولا تخرج منہ اذا اعتکفت فلو خرجت لغیر عذر یفسد واجبہ وینتھی نفلہ “ عورت کے لئے اپنی مسجدِ بیت میں اعتکاف ہے۔ جب وہ اعتکاف کر لے تو اس سے نہیں نکلے گی اگر بلا عذر نکلی تو اس کا واجب اعتکاف فاسد ہو جائے گا اور نفلی اعتکاف منتہی ہو جائے گا۔ (طحطاوی علی المراقی ، ص699)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مجیب : محمد نوید رضا عطاری

مصدق : مفتی فضیل رضا عطاری

رمضان میں  عورت کے مخصوص ایام کا ایک اہم مسئلہ

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ 02 رمضان کو عورت کو عادت کے مطابق حیض آیا اور عادت کے مطابق 07 رمضان کو ختم بھی ہوگیا پھر دوبارہ 14 رمضان کو خون آ گیا تو کیا یہ حیض شمار ہوگا؟ اور اس سے روزہ ٹوٹ گیا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

دو حیضوں کے درمیان کم از کم پندرہ دن فاصلہ ضروری ہوتا ہے ، پندرہ دن سے پہلے آنے والا خون حیض نہیں بلکہ استحاضہ یعنی بیماری کا خون ہوتا ہے ، لہٰذا چودہ رمضان کو جو خون آیا وہ حیض نہیں ، بلکہ استحاضہ ہے اور استحاضہ چونکہ نماز و روزہ کے منافی نہیں ہوتا ، لہٰذا عورت کا روزہ بھی نہ ٹوٹا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مجیب : محمد سرفراز اختر عطاری

مصدق : مفتی فضیل رضا عطاری

عدت والی عورت کا حمل ساقط ہوگیا تو وہ کیا کرے؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے ماموں کا انتقال ہوگیا ہے ، انتقال کے وقت ان کی بیوی حاملہ تھی۔ انتقال کے بیس دن بعد حمل ساقط ہوگیا۔ اب سوال یہ ہے کہ عدت مکمل ہوگئی ہے یا چار ماہ دس دن مکمل کرنے ہوں گے؟

نوٹ : ساقط ہونے والے حمل کےاعضاء بن چکے تھے۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حاملہ عورت کی عدت وضع حمل یعنی بچہ پیدا ہونے تک ہوتی ہے اور حمل ساقط ہونے کی صورت میں ، پورے یا بعض اعضاء بن چکے ہوں تویہ بھی وضع حمل شمار ہوتا ہے اور عدت مکمل ہوجانے کا حکم دیا جاتا ہے ، لہٰذا صورت ِمستفسرہ میں واقعی اگر حمل کے اعضاء بن چکے تھے تو حمل ساقط ہوتے ہی عدت مکمل ہوگئی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبــــــــــــــــہ

مفتی فضیل رضا عطاری


Share