مثبت سوچئے!

فریاد

مثبت سوچئے! (Think Positive)

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ مئی 2021ء

کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ہم ایک شخص سے رابطے کی کوشش کررہے تھے ، ہم میں سے کسی نے اس کا نمبر ملایا تو کال ریسیو نہیں ہو رہی تھی ، مجھے بتایا گیا تو فوراً ذہن میں خیال آیا کہ ہوسکتا ہے وہ بائیک پر ہو۔ دل میں ایسی سوچ کا پیدا ہونا یہ اللہ پاک کا کرم ، اس کی عنایت ، دعوتِ اسلامی جیسے دینی ماحول کے ساتھ اَٹیچ مِنٹ اور شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کے دامن سے وابستگی کانتیجہ ہے ، ورنہ یہ سوچ بھی آسکتی تھی کہ وہ شخص جان بوجھ کر کال نہیں اٹھا رہا ہوگا۔ اگر اس وقت ایسی نیگیٹیو سوچ میرے ذہن میں آتی اور پھر اسی کو میں اپنی زبان پر بھی لاتا تو اس کا میرے پاس کیا ثبوت ہوتا؟

اے عاشقانِ رسول! ہم جب کسی کو کال ، واٹس ایپ یا میسج کرتے ہیں تو رِسپونس نہ ملنے پر عموماً درج ذیل پوزیٹیو اور نیگیٹیو باتیں ہمارے دل یا زبان پر آجاتی ہیں ، مثلاً کال نہیں اٹھ رہی ، کال اٹھا نہیں رہا ، نمبر رسیو نہیں کررہا ، نمبر رسیو نہیں ہو رہا ، اس نے میرا واٹس ایپ چیک نہیں کیا اور واٹس ایپ چیک نہیں ہوا وغیرہ۔ مختلف مواقع پر لوگ کئی نیگیٹیو سوچوں اور باتوں کے ذریعے ڈائریکٹ یا اِن ڈائریکٹ دوسرے کی ذات اور عزّت پر اٹیک کررہے ہوتے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات ان چیزوں سے روک رہی ہوتی ہیں ، آپ بھی اپنی دلی کیفیت کے بارے میں غور فرما لیجئے کہ جب آپ کسی کو کال ، واٹس ایپ یا میسج کرتے ، کسی کے گھر کی بیل یا دروازہ بجاتے ہیں تو رِسپونس نہ ملنے پر آپ کے دل میں پوزیٹیو سوچ آتی ہے یا نیگیٹیو؟ سب سے پہلے آپ کے ذہن میں جو بھی خیال آتا ہے وہی آپ کی دلی کیفیت ہے۔ مگر ایک بات یاد رکھئے! بِلا اجازتِ شرعی دوسرے شخص کے بارے میں اپنے دل میں بُرے خیال اور نیگیٹیو سوچ کا لانا دل کے گندہ ہونے کی نشانی ہے۔ “ اَئمۂ دین  رحمۃُ اللہِ علیہم فرماتے ہیں : خبیث گُمان خبیث دل سے پیدا ہوتا ہے۔ (فیض القدیر للمناوی ، 3 / 157 ، تحت الحدیث : 2901) دل میں خباثت اور گندگی کے ہوتے ہوئے انسان کا خود کو اچھا اور نیک سمجھنا اس کی عقل مندی ہے یا بےوقوفی اس کا جواب ہر سلامت عقل رکھنے والے کے پاس موجود ہوگا۔ بہرحال شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے دوسروں کے ساتھ اچھائی کرنا اور ان کے بارے میں اچھا سوچنا ، یہ اسلام کی بہت ہی خوب صورت تعلیمات میں سے ہے ، اس کا جہاں اُخْرَوِی فائدہ ہے وہیں دُنْیَوِی اعتبار سے بھی اس کے بےشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ، مثلاً اس سے آدمی اسٹریس (ذہنی دباؤ) کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اگر ایسی بیماری میں مبتلا بھی ہو تو اس سوچ کی وجہ سے اس کا اسٹریس کم ہوتا ، اس کی ذہنی الجھنیں دور ہوتیں اور ذہنی اعتبار سےوہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ، اس کا امیُون سسٹم اچھا رہتا اور اس کی زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے ، اس کے بَرخلاف اگر انسان دوسروں کے ساتھ بُرا کرے یا دوسروں کے خلاف سوچے ، اس کی جہاں اُخْرَوِی خرابیاں ہیں وہیں دُنْیَوِی نقصانات بھی بہت سے ہیں ، مثلاً اس طرح آدمی ڈپریشن ، ٹینشن ، اینگزائیٹی (گھبراہٹ) ، بعض اوقات شوگر لیول کے بڑھنے ، بلڈ پریشر بگڑنے ، بے چینی ، بے قراری ، بے سکونی ، نیند نہ آنے اور دیگر کئی طرح کی بیماریوں اور پریشانیوں سے دو چار رہتا ہے ، یہی غلط اور نیگیٹیو سوچ سگے بھائیوں اور بہنوں میں دشمنی ، ساس بہو میں لڑائی ، میاں بیوی کے ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی پھر لڑائی اور بالآخر طلاق اور جدائی ، نیز خونی رشتوں میں دراڑیں آنے اور ہنستے بستے گھر اجڑنے کا ایک بہت بڑا سبب ہوتی ہے۔ تفسیر صِراطُ الجنان میں لکھا ہے کہ “ دوسروں کے لئے بُرے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے جیسا کہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپوٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں کے لئے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے میں رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ%86بڑھ جاتا ہے۔ (صراط الجنان ، 9 / 436) واقعی یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں کا ذہن الٹا ہی چلتا ہے ، ان کے ساتھ جو اچھا ہوا اسے سوچنے کے بجائے جو بُرا ہوا وہ اسے ہی سوچتے رہتے ہیں ، بسااوقات تو کسی کی اچھائی کو بھی بُرائی سمجھ رہے ہوتے ہیں ، بعض تو ویسے ہی کچھ دیکھ کر یا پھر کسی کی کوئی بات دوسرے کے خلاف یا اپنے خلاف سُن کر اپنی نیگیٹیو سوچ کے میٹر کو آن کر لیتے ہیں ، یاد رکھئے! اپنی غلطیوں ، خامیوں اور کمزوریوں کی طرف دیکھنے اور انہیں دور کرنے کے بجائے منفی سوچتے رہنا انسان کو طبی اعتبار سے کہاں تک لے جاسکتا ہے ملاحظہ کیجئے :

UK کے ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جو لوگ بھی مینٹل ہیلتھ پرابلمز کا شکار ہوتے ہیں ان میں سے اکثر کی وجہ منفی سوچیں ہوتی ہیں ، ان کی سب سے بڑی پرابلم یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے صرف منفی رویوں کو ہی یاد رکھتے اور ان چیزوں کو سوچتے رہتے ہیں ، پھر بالآخر (Ultimately) ایسے افراد ذہنی طور پر پریشر ، اسٹریس ، ڈپریشن ، گھبراہٹ (Anxiety) ، اعصابی بیماریوں (neurotic disorders) اور پاگل پَن (Insanity) کے شکار ہوجاتے ہیں۔

اس طرح کے افراد کا جب علاج کیا جاتا ہے تو دوائی کے ساتھ ساتھ بلکہ دوائی سے بھی پہلے مریض کی منفی سوچوں کو مریض پر ظاہر کیا جاتا ہے ، تاکہ وہ خود سمجھ لے اور اس بات کو قبول کرلے کہ “ ہاں “ یہ میری منفی سوچیں ہیں ، اس کے بعد ایسے مریض کو اس کی زندگی کے پوزیٹیو پہلوؤں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ آپ سوچئے! کہ زندگی میں آپ کے ساتھ کیا کیا اچھائی ہوئی یا کس نے آپ کے ساتھ کیا اچھائی کی ہے ، یہ منفی سے مثبت سوچ کی جانب خود کو لانے کا بہت بہترین طریقہ ہے اور اس سے مریض کی صحت جلد بہتر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

اسلام کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر خودکو پوزیٹیو رکھنے اور پوزیٹیو سوچنے کا درس دیتا اور ایسی سوچ کو عبادت کہتاہے ، لہٰذا جب تک شریعت اجازت نہ دے تب تک مسلمانوں کے افعال و اقوال کے بارے میں اچھی ہی سوچ رکھئے اور بالخصوص اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک ربِّ کریم کے ساتھ بھی اچھا گمان رکھئےکہ وہ کریم جو کرتا ہے اچھا ہی کرتاہے ، اللہ پاک کے آخری نبی محمدِعربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمانِ عالیشان ہے : اچھا گمان اچھی عبادت سے ہے۔ (ابوداؤد ، 4 / 387 ، حدیث : 4993)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیارخان  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں : اس فرمانِ عالی کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ اللہ پاک کے ساتھ اچھا گمان اس سے امید وابستہ کرنا بھی عبادت میں سے ایک اچھی عبادت ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ پاک سے امید اچھی عبادت سے حاصل ہوتی ہے جو عبادت کرے گا اسے یہ امید نصیب ہوگی۔ تیسرا یہ کہ عبادت کے ذریعے اللہ پاک سے اچھی امید رکھو ، عبادت سے غافل رہ کر امیدیں باندھنا حماقت (بےوقوفی) ہے جیسے کوئی “ جَو “ بو کر گندم کاٹنے کی امید کرے۔ چوتھا یہ کہ اللہ پاک کے بندوں یعنی مسلمانوں سے اچھا گمان کرنا ان پر بدگمانی نہ کرنا یہ بھی اچھی عبادات میں سے ایک عبادت ہے اس فرمان کے اور بھی معنی ہوسکتے ہیں مثلًا یہ کہ مسلمانوں پر اچھا گمان اچھی عبادات سے حاصل ہوتا ہے جو عابد (عبادت کرنے والا) ہوگا وہ ہی نیک گمان ہوگا جو خود بُرا ہوگا دوسروں کو بھی بُرا ہی سمجھے گا۔ (مراٰۃ المناجیح ، 6 / 621ملخصاً)

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے! دنیوی اور اخروی نقصانات سے بچنے کے لئے اپنی سوچوں کو پوزیٹیو رکھئے ، اپنی اولاد ، گھر والوں اور اپنے تعلق رکھنے والوں کو بھی اسی کا ذہن دیجئے ، معاشرے میں پوزیٹیو سوچ ڈلیور کرنے والی دینی تحریک “ دعوتِ اسلامی “ کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوط کیجئے ، اس کے لئے مدنی قافلوں میں سفر ، مدنی مذاکروں میں شرکت ، مدنی چینل کو دیکھنا اور ہر ماہ “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ کو لینااور پڑھنا مَت بھولئے۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی سعادت نصیب فرمائے۔                              اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share