قضا روزے کس طرح رکھے جائیں؟

دارُالافتاء اہلِ سنّت

ماہنامہ مئی 2021ء

(1)قضا روزے کس طرح رکھے جائیں؟

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ اس وقت والد صاحب کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے لیکن فی الحال روزہ رکھنے کی صلاحیت ہے اور روزہ رکھ بھی رہے ہیں۔ ہمارے والد صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جان بوجھ کر بہت سے روزے قضا کر دئیے ہیں ، اب معلوم یہ کرنا چاہ رہے ہیں کہ ان قضا روزوں کی ادائیگی کی کیا صورت ہے؟ قضا روزے ہی رکھنا ضروری ہیں یا ان کی جگہ فدیہ بھی دے سکتے ہیں؟ اگر فدیہ دینے کی اجازت ہے تو ایک روزے کا کتنا فدیہ ہے؟

سائل : بلال (کراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب نے اپنی زندگی میں جتنے روزے جان بوجھ کر ترک کئے ہیں ان روزوں کو قضا کرنا ان پر فرض ہے لگاتار ضروری نہیں چھوڑ چھوڑ کر بھی رکھ سکتے ہیں یونہی سردیوں میں رکھنا آسان ہوتے ہیں اس موسم میں رکھ لئے جائیں الغرض جتنا جلدی ہوسکے روزے قضا ہی کرنے ہونگے ، فدیہ یا کفارہ دینا کافی نہیں ہے۔ ساتھ میں روزہ چھوڑنے کے گناہ سے توبہ کرنا بھی لازم ہے۔ یاد رہے کہ فدیے کا حکم صرف شیخِ فانی کے لئے ہے ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ شیخِ فانی سے مراد وہ شخص ہے جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہوچکا ہو کہ اس میں حقیقتاً روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو ، نہ سردی میں ، نہ گرمی میں ، نہ لگاتار اور نہ متفرق طور پر ، اور آئندہ زمانے میں بھی ضعف بڑھنے کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت ہونے کی امید نہ ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبــــــــــــــــہ

مفتی فضیل رضا عطّاری

(2)قرض دار کو زکوٰۃ کے پیسے دینا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زکوٰۃ کے مستحق کون کون سے لوگ ہیں۔ ایک مسلمان جو کہ مقروض ہو ، سید اور ہاشمی بھی نہ ہو اور قرض کی ادائیگی کے لئے اس کے پاس کچھ نہ ہو تو کیا یہ اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ لے سکتا ہے؟سائل : عاشق حسین (سولجر بازار ، کراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں جس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا ہے ، اگر واقعی وہ ایسا ہی ہے تو پھر وہ زکوٰۃ کا مستحق ہے ، اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ زکوٰۃ کے مصارف میں شرعی فقیر اور مقروض بھی شامل ہیں۔

شرعی فقیر وہ ہے جس کے پاس اتنا نہ ہو کہ نصاب کو پہنچ جائے یا نصاب کے برابر تو ہو مگر اس کی ضروریاتِ زندگی میں گھِرا ہوا ہو یا مقروض ہو کہ قرضہ نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے ، ایسا شخص شرعی فقیر کہلاتا ہے جسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

قرآن مجید فرقان حمیدمیں زکوٰۃ کے مستحق آٹھ (8) قسم کے لوگ قرار دیئے گئے۔ پھر ان میں سے مؤلَّفۃ القلوب باِجماعِ صحابہ ساقط ہوگئے تو اب زکوٰۃ کے مصارف درج ذیل سات قسم کے لوگ ہیں : (1)فقیر (2)مسکین (3)عامل (4)رقاب  (5)غارم یعنی مقروض (6)فی سبیل اﷲ یعنی جو راہ خدا میں ہو (7)اِبنِ سبیل ، وہ مسافر جس کے پاس مال نہ رہا ہو۔ البتہ فی زمانہ رقاب کی صورت بھی نہیں پائی جاتی کہ اب کوئی لونڈی غلام نہیں تو ان کو چھڑانے میں ادائیگی زکوٰۃ کی صورت بھی نہیں بنتی۔

ضروری تنبیہ : یاد رہے کہ اس صورت میں زکوٰۃ لینے کی اجازت اُسی وقت تک ہو گی جب تک وہ شخص شرعی فقیر رہے گا ، لہٰذا جب اس کے پاس قرض منہا (یعنی مائنس) کرنے کے بعد ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر حاجاتِ اصلیہ سے زیادہ رقم ہوگی تو تب وہ شرعی فقیر نہیں رہے گا بلکہ غنی ہو جائے گا اور پھر مزید کوئی شخص اپنی زکوٰۃ اسے نہیں دے سکے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبــــــــــــــــہ

مفتی فضیل رضا عطّاری

(3)صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جس شخص نے کسی عذر کی وجہ سے رمضان شریف کے روزے نہ رکھے ہوں کیا اس پر بھی صدقہ ٔ فطر واجب ہے یا نہیں؟ سائل : محمد قاسم (حیدر آباد)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صدقۂ فطر ہر آزاد ، مسلمان کہ جو نصاب کا مالک ہو (یعنی جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر رقم یا کوئی سامان حاجتِ اصلیہ اور قرض کے علاوہ موجود ہو) اس پر واجب ہے۔ رمضان کے روزے رکھنا اس میں شرط نہیں وہ جدا گانہ طور پر فرض ہیں لہٰذا جس نے کسی عذر کی وجہ سے یا معاذ اللہ بلاعذر ، رمضان میں روزے نہیں رکھے ، اگر وہ صاحبِ نصاب ہے تو اس پر بھی صدقہ ٔفطر واجب ہے۔

تنبیہ : یاد رہے کہ بغیر کسی شرعی عذر کے رمضان شریف کا روزہ چھوڑدینا ، سخت حرام و گناہ ہے ، ایسے شخص پر شرعاً اس گناہ سے توبہ کرنا اور بعد میں ان روزوں کی قضا کرنا لازم ہے ، یونہی جس شخص نے کسی شرعی عذر کی وجہ سے روزے نہیں رکھے ، اس پر بھی عذر ختم ہونے کے بعد ان روزوں کی قضا لازم ہے ، ہاں اگر یہ شیخِ فانی کی حد تک پہنچ چکا ہو یعنی اس قدر بوڑھا ہوچکا ہو کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس میں نہ اب روزہ رکھنے کی طاقت ہے اور نہ آئندہ اتنی طاقت آنے کی امید ہے بلکہ روز بروز کمزوری بڑھتی جارہی ہےتو ایسی صورت میں اس پر ہر روزے کے عوض فدیہ دینا لازم ہے۔ ایک روزہ کا فدیہ ، ایک صدقۂ فطر کی مقدار یعنی نصف صاع (2 کلو میں 80 گرام کم) گندم یا اس کا آٹا ، یا ایک صاع (یعنی 4 کلو میں 160 گرام کم) کھجور ، یا کشمش یا جو یا اس کا آٹا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مجیب : ذاکر حسین عطّاری مدنی

مصدق : مفتی فضیل رضا عطّاری

 

 


Share