تفسیر قراٰنِ کریم
نعمتیں اور شکر(تیسری اور آخری قسط)
* مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ مئی 2021
شکر کی رَوِش ہر حال میں اَپنانی چاہیے ، کیونکہ جس وقت بندہ کسی مصیبت میں ہوتا ہے اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی لاکھوں نعمتیں اس کے ساتھ موجود ہوتی ہیں ، مثلاً اگر کسی کی ٹانگ ٹوٹ جائے تو کیا عین اُسی وقت بقیہ اعضاء کی سلامتی نعمت نہیں؟ یقیناً ہے ، بلکہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی تکلیف ، تنگی یا مشکل دَر حقیقت نعمت ہوتی ہے جیسے مال و دولت کی کمی باعثِ تکلیف ہے لیکن حقیقت میں یہ اکثر لوگوں کے حق میں نعمت ہے کیونکہ اگر اُن پر رزق کے دروازے کھول دئیے جاتے تو وہ ظلم و ستم ، عیاشی و فحاشی ، مَعاصی یعنی گناہوں اور فتنہ و فساد میں پڑجاتے ، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا : ( وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ) ترجمہ : اور اگر اللہ اپنے سب بندوں کیلئے رزق وسیع کردیتا تو ضروروہ زمین میں فساد پھیلاتے۔ (پ25 ، الشوریٰ : 27) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور اسی پر دوسرے پہلو سے یوں غور کرلیں کہ کیا وہ کار (Car) نعمت ہے جسے چلا کر ایکسیڈنٹ (Accident) ہونے سے انسان ہمیشہ کے لئے مفلوج ہوجائے؟ کیا وہ مال و دولت کی فَراوانی نعمت ہے جسے لوٹنے کے لئے ڈاکو اہلِ خانہ کو جان سے مار دیں؟ اِن مثالوں کا یہ مقصد نہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہے بلکہ یہ ہے کہ ایسا “ بھی “ ہوجاتا ہے ، لہٰذا جس حالت میں ہم ہیں وہی ہمارے لئے بہتر ہوسکتی ہے ، اس لئے بہتری کے لئے کوشش ضرور کی جائے لیکن ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ہی ادا کیا جائے۔
ہر حال میں شکر کے متعلق علمائے کرام نے بہت خوب صورت کلام فرمایا ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں کہ شکر ادا کرنے والے کے لئے ایک لفظ “ شَاکِر “ ہے اور دوسرا لفظ “ شَکُور “ ہے۔ “ شَاکِر “ وہ ہے جو نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے اور “ شَکُور “ وہ ہے جو مصیبتوں ، تکلیفوں اور آزمائشوں پر بھی شکر ادا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت نوح علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کے متعلق فرمایا : (اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(۳)) ترجمہ : بیشک نوح بڑے ہی شکر گزار تھے۔ (پ15 ، بنی اسرائیل : 3) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اِس کی تفسیر میں ہے : اِنَّہ کانَ یَشْکُرُ اللہَ تعالٰی علٰی کُلِّ حالٍ من خیر او شرٍ او نفع او ضرٍ ترجمہ : یعنی حضرت نوح علیہ السّلام ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے خواہ وہ خیر کی حالت ہو یا شر کی ، نفع کی ہو یانقصان کی۔ (قوت القلوب ، 1 / 345)
شکر کیسے ادا کیا جائے؟ شکر ادا کرنے کے چند طریقے عرض کرتا ہوں۔
پہلا طریقہ : دل و جان سے یہ سمجھ لیا جائے کہ حقیقت میں خدا کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا اور ہم اُس ربِّ کریم کا پوری طرح شکر ادا کرنے سے عاجز و قاصر ہیں ، چنانچہ حضرت موسیٰ علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے عرض کیا : اے میرے رب! میں تیرا کیسے شکر ادا کروں جبکہ میں تیرا شکر بھی تیری توفیق کے بغیر ادا نہیں کرسکتا اور وہ توفیق بھی تیری اگلی نعمت ہوتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے موسیٰ! جب تو نے یہ حقیقت پہچان لی تو تم نے میرا شکر ادا کردیا۔ (احیاء العلوم ، 4 / 83)
دوسرا طریقہ : عارفین کے نزدیک شکر کی سب سے پہلی منزل یہ ہے کہ اللہ کی نعمت ، اُس کی نافرمانی میں خرچ نہ کی جائے۔ قرآن پاک میں فرمایا : (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا) ترجمہ : کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا۔ (پ13 ، ابراھیم : 28) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اِس آیت میں ناشکری کی ایک تفسیر علمائے کرام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اُن لوگوں نے نعمتوں کو ناشکری سے یوں بدلا کہ اُن نعمتوں سے گناہوں پر مدد حاصل کی ، جیسے اعضائے بدن کو گناہوں میں مشغول کیا اور مال و دولت کو ناجائز لذتوں کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی وسعت یوں بیان فرمائی :
(وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةًؕ-) ترجمہ : اور اس نے تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں۔ (پ21 ، لقمان : 20) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور اس پر شکر ادا کرنے کا طریقہ نیچے والی آیت سے اشارتا ً بیان فرمایا : (وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗؕ-) ترجمہ : اور ظاہری اور باطنی سب گناہ چھوڑ دو۔ (پ8 ، الانعام : 120) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :
رزقِ خدا کھایا کِیا ، فرمانِ حق ٹالا کِیا
شکرِ کرم ترسِ سزا ، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
تیسرا طریقہ : دل ، زبان اور اعضاء سب سے اللہ تعالیٰ کے مُنْعِم ہونے کا اعتراف و اظہار ہو ، یعنی دل خدا کو مُنعِمِ حقیقی مانتے ہوئے احساسِ تشکُّر سے لبریز ہو ، زبان نعمتوں کے پیشِ نظر اُس کی حمد و ثنا کرے اور اعضاء اُس کی نافرمانی سے بچیں اور اُس کی بندگی میں استعمال ہوں۔
چوتھا طریقہ : قلیل و کثیر سب نعمتوں پر شکر ادا کرنا اپنی عادت بنالے اور ہر نعمت کے تذکرے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرے جیسے کوئی طبیعت کا پوچھے تو صرف یہ جواب نہ دے کہ “ ٹھیک ہے ، بہتر ہے “ بلکہ کہے کہ “ اللہ کا کرم ہے “ ، “ اللہ کے فضل سے میری طبیعت ٹھیک ہے “ ، “ خدا کی رحمت ہے “ یا عربی الفاظ “ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِین عَلٰی کُلِّ حَال “ اِس طرح کے جملے اپنا معمول بنائے۔
پانچواں طریقہ : عبادت کی کثرت سے شکر ادا کرے یعنی نفل نمازوں ، روزوں ، صدقات ، تلاوتِ قرآن ، ذکرِ الٰہی اور دُرودِ پاک کی کثرت کرے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی طویل نمازوں کا سبب شکر کی ادائیگی ہی بتایا ہے چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز میں اس قدر قیام فرماتے کہ آپ کے مبارک پاؤں سوج (Swell) جاتے۔ (مسلم ، ص1160 ، حدیث : 7125)
ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا نے عرض کی : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آپ ایسا کر رہے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں ، تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اے عائشہ! کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(مسلم ، ص1160 ، حدیث : 7126)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دار الافتاء اہلِ سنّت فیضانِ مدینہ کراچی
Comments