اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسی غیرمعمولی قوتِ سماعت یعنی سننے کی طاقت (Listening Power) عطا فرمائی ہے کہ آپ ان آوازوں کو بھی سُن لیتے ہیں جنہیں کوئی اور نہیں سنتا۔ ([i]) سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس عظیم خصوصیت سےمتعلق کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیے :
ہرآواز کو سننا : رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک فرمان ہے : اِنِّي اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ یعنی میں ہر اس چیز کو دیکھتا ہوں جسے تم نہیں دیکھتے اور ہر اس آواز کو سنتا ہوں جسے تم نہیں سنتے۔ ([ii])
شارحِ بخاری صدرُ العلماء حضرت علامہ مولانا سیِّد غلام جیلانی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے تحت فرماتے ہیں : ہر وہ آواز اس میں داخل ہے جس کو مُخاطَبین(یعنی جن سے خطاب فرمایا) نہیں سنتے خواہ وہ عالَم کے کسی گوشے سے اٹھے ، کُرّۂ زمین کی ہو یا کُرّۂ آب کی ، کُرّۂ ہوا کی ہو یا کُرّۂ نار کی ، کُرّۂ سماوات کی ہو یا عرش و کرسی کی ، خواہ انسان کی آواز ہو یا حیوانات کی ، نَباتات (پودوں وغیرہ) کی ہو یا جمادات (پتھر وغیرہ بے جان چیزوں ) کی ، جِنّات کی ہو یا فرشتوں کی یا ایسی مخلوق کی آواز ہوجس کو ہم نہیں جانتے۔ غرض کہ تمام عالَم (Universe Whole) کی جملہ آوازوں پر یہ کلمہ مشتمل ہے۔ ([iii])
دُور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام([iv])
بُھنی ہوئی بکری کی بات سُن لی : ایک غیر مسلم عورت نے بُھنی ہوئی بکری میں زہر(Poison) ملاکر رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پیش کیا۔ اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس عورت سے فرمایا : اَسَمَمْتِ هٰذِهِ الشَّاةَیعنی کیا تو نے اس بکری میں زہر ملایا ہے؟ اس نے پوچھا : آپ کو کس نے خبر دی؟ ارشاد فرمایا : اَخْبَرَتْنِي هٰذِهٖ فِي يَدِي یعنی مجھے بکری کے اس بازو نے خبر دی جو میرے ہاتھ میں ہے۔ ([v]) مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : معلوم ہوتا ہے کہ خود گوشت نے حضور( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )کو خبر دی کہ مجھ میں زہر ملا ہے۔ ([vi]) آسمان کی آواز سن لیتے : فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اِنِّيْ لَاَسْمَعُ اَطِيْطَ السَّمَاء یعنی بے شک میں آسمان کے چَرچَرانے کی آواز سنتا ہوں۔ ([vii]) فرشتوں اور جنتی حور کی سننے کی طاقت : 2فرامینِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم : (1)اِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَّلَ بِيْ مَلَكَيْنِ لَا اُذْكَرُ عِنْدَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ فَيُصَلِّيْ عَلَيَّ اِلَّا قَالَ ذَانَاكَ الْمَلَكاَنِ غَفَرَ اللهُ لَكَ یعنی بے شک اللہ پاک نے میرے ساتھ دو فرشتے مقرر فرمائے ہیں۔ جب کسی مسلمان کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود بھیجےتو وہ فرشتے کہتے ہیں : اللہ تیری مغفرت فرمائے۔ ([viii]) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں فرشتے ہر اُمتی کا دُرُود سنتے ہیں۔ ([ix])
(2)جب دنیا میں کوئی عورت اپنے شوہر کو تکلیف پہنچاتی ہے تو حوروں میں سے اس شخص کی بیوی کہتی ہے : اللہ تجھے ہلاک کرے! اسے تکلیف مت پہنچا!یہ تیرے پاس مہمان ہے اور عنقریب تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آئے گا۔ ([x]) سَماعتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مولانا سیِّد غلام جیلانی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں روایات کو نقل کرکے فرماتے ہیں : جنت ساتویں آسمان سے اوپر ہے اور حسبِ ارشادِ نبوی زمین سے پہلے آسمان تک پانچ سو برس کی مَسافت(Distance) ہے اور اتنا ہی پہلے آسمان کا دَل(یعنی موٹائی) ہے۔ اسی طرح ہر دو آسمان کے درمیان پانچ سو برس کی مَسافت ہے اور اسی قدر ہر آسمان کا دَل۔ تو زمین سے ساتویں آسمان تک سات ہزار برس کی مَسافت ہوئی اور زمین سے جنت تک کی مسافت اور زیادہ کیونکہ وہ ساتویں آسمان کے اوپر ہے۔ مقامِ غور ہے کہ جب ہر دو فرشتوں کی قوتِ سَماع (Listening Power) اتنی قَوِی ہے کہ ہر مسلم اُمّتی کا درود سُن لیتی ہیں ، اور حورانِ بہشت(یعنی جنتی حوروں) کی سَماعت کا یہ عالَم ہے کہ سات ہزار برس سے زیادہ مَسافت پر رہ کر کرۂ زمین کی آوازیں سن لیتے ہیں تو محبوبِ خدا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم ہر اُمّتی کا دُرُود کس طرح نہ سُنیں گے ، حالانکہ آپ فرشتوں اور حُورانِ بہشت بلکہ سارے عالَم سے افضل ہیں ، اور تمام عالَم کی تخلیق (Creation) آپ کے طفیل میں ہوئی ہے اور آپ کے اور امتیوں کے درمیان اتنی مَسافت (Distance) بھی نہیں جتنی مَسافت حورانِ بہشت اور زمین کے درمیان ہے۔ ایمانی عقل کسی طرح گوارا نہیں کرسکتی کہ طُفیلی یہ کمال پائیں اور اصل محروم رہے ، بلکہ ایمانی عقل یہ حکم کرتی ہے کہ ہر مخلوق سے ہر کمال میں آپ فُزُوں تَر (یعنی بڑھ کر)ہیں اور ہر نعمت آپ کو بروجہِ اَتم دی گئی ہے اور تمام کمالات کے جملہ مَراتب آپ پر ختم ہیں۔ ([xi]) جہاں سے چاہو پُکارو حضور سنتے ہیں : فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : لَيْسَ مِنْ عَبْدٍ يُّصَلِّیْ عَلَيَّ اِلَّا بَلَغَنِيْ صَوْتُہٗ حَيْثُ كَانَ یعنی جو بھی شخص مجھ پر دُرُود پڑھتا ہے تو اس کی آواز مجھےپہنچتی ہےچاہےوہ کہیں بھی ہو۔ ([xii])
صدرُ العلماء لکھتے ہیں : بیشک سرورِ کائنات ، فخرِ موجودات ، تاجدارِ انبیاء ، محبوبِ کبریا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ہر اُمتی کا درود و سلام بگوشِ خود (یعنی اپنے کانوں سے) سنتے ہیں خواہ وہ زمین کے کسی گوشے میں بسنے والا ہویا فلک کے کسی حصے میں ، خواہ خشکی اور دریا میں رہتا ہویا زمین اور آسمان کی درمیانی فضا میں۔ غرض کہ عالَم کے کسی حصے میں بھی ہو ، اس کا درود وسلام بگوشِ خود سنتے ہیں۔ پھر درود و سلام پر انحصار نہیں بلکہ ہر مخلوق کی ہر آواز سنتےہیں اور ہرمخلوق کوبچشمِ خود (یعنی اپنی مبارک آنکھوں سے) دیکھتےہیں۔ ([xiii])
نہیں ہے کچھ عرض کی ضرورت کہ ان پہ روشن ہے سب کی حالت
رسولِ اکرم سَمِیع بھی ہیں بَصِیر بھی ہیں عَلِیم بھی ہیں([xiv])
سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی کی آواز سُن لیتے : عارِف بِاللہ حضرت سیِّدنا امام عبدُالوھاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی پر موجود حضرت سیِّدنا جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پروں کی سَرسَراہٹ سن لیا کرتے ۔ ([xv]) مبارک کانوں کی شان : امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعطائے الٰہی حضور ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی قوتِ سامِعہ (یعنی سننے کی طاقت) تمام شَرْق و غَرْب (East and West) کو مُحِیْط (یعنی گھیرے ہوئے)ہے ، سب کی عَرضیں آوازیں خود سنتے ہیں ، اگرچہ آدابِ دربارِ شاہی کے لئے ملائکہ عَرضِ دُرود و عرضِ اعمال کے لئے مُقَرَّر(Appointed) ہیں۔ بلاشبہ عرش و فرش کا ہر ذرہ ان کے پیشِ نظر ہے اور اَرْض و سَما (یعنی زمین و آسمان)کی ہرآواز ان کے گوش(یعنی کان) مبارک میں ہے۔ ([xvi])
کان ہیں کانِ کرم جانِ کرم آنکھ ہے یا چشمۂ تنویر ہے([xvii])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments