(1)قربانی کے جانور سے منفعت حاصل کرنا کیسا ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قبلِ ذبح قربانی کے جانور سے منفعت حاصل کرنا منع ہے اس سےکیا مراد ہے؟نیز یہ بھی وضاحت فرمادیں کہ قربانی کے جانور سے منفعت کا حصول کب سے منع ہوگا؟ (سائل : صدام فیضانی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس جانور پر قربانی کی نیت کرلی جائے تو اس سے اب کسی بھی قسم کی منفعت (یعنی فائدہ) حاصل کرنا جائز نہیں ، کیونکہ وہ جانوراپنے تمام اجزاء کے ساتھ قربت (یعنی نیکی)کيلئے متعین ہوچکا ہے اور یہ قربت اسی وقت حاصل ہوگی جب اللہ عزوجل کے نام پر اس جانور کا خون بہایا جائے ، لہٰذا جب تک جانور سے یہ اصل غرض حاصل نہ ہوجائے تب تک اس سے ہر قسم کا انتفاع (Obtaining Benefit) مکروہ و ممنوع ہے۔ رہی یہ بات کہ اس منفعت سے کیا مراد ہے؟ تو اس سے مراد اپنے کسی کام کے لئے اس جانور سے فائدہ اٹھانا ہے۔ فقہائے کرام نے اس کی کئی مثالیں بیان کی ہیں ، جیسے اپنے کسی کام کے لئے قربانی کے جانور کے بال کاٹ لینا ، اس کا دودھ دوہنا ، اس کی اون اور دودھ کو بیچنا ، اس پرسواری کرنا ، اس پر کوئی چیز لادنا یا اس کو کرایہ پر دے دینا وغیرہ ۔
البتہ یہ مسئلہ ذہن نشین رہے کہ اگر کسی شخص نے قربانی کے جانور کی اون کاٹ لی یا اس کا دودھ دوہ لیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے صدقہ کرے اور جانور کو اجرت پردینے کی صورت میں وہ اجرت صدقہ کرے ، اسی طرح قربانی کے جانور کو استعمال کرنے کی صورت میں اگر اس جانور میں کچھ کمی آگئی تو اس کمی کی مقدار میں رقم صدقہ کرے۔ (رد المحتار ، 9 / 544 ملتقطاً ، حاشیۃالطحطاوی علیٰ الدرالمختار ، 4 / 167 ، فتاویٰ رضویہ ، 20 / 512 ، 511ملخصاً ، بہار شریعت ، 3 / 347)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــہ
مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
(2)خصی کرنے کی وجہ سے ایک کپورا ضائع ہوجائے تو ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بکرے کو خصی کیا گیا ، خصی کرنے کے دوران اس کا ایک کپورا خراب ہو گیا ، جس کو بعد میں نکالنا پڑا ، لیکن وہ بکرا مکمل طور پر خصی ہوگیا۔ جس پر بعض لوگوں نے کہنا شروع کردیا ، کہ اس کا چونکہ ایک کپورا نکالا گیا ہے ، اس لیے اس کی قربانی نہیں ہو سکتی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا اس ایک کپورے والے بکرے کی قربانی ہوسکتی ہےیا نہیں؟ شرعی راہنمائی فرما دیں۔
(سائل : محمد رمضان )
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں خصی بکرے میں ایک کپورا کم ہونے کی وجہ سےاس کی قربانی جائز ہے ، کیونکہ اگر کسی بکرے کے دونوں کپورے اور عضوِ تناسل کو بھی کاٹ لیا جائے ، تو فقہائے کرام نے ایسے بکرے کی قربانی کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ لہٰذا اگر بکرے کا ایک ہی کپورا نکالا گیا ہو ، تو اس کی قربانی تو بدرجہ اولیٰ جائز ہو گی ، کیونکہ خصی بکرے میں کپوروں کو کاٹنا ، عیب نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے قربانی ناجائز ہو۔ اور جن لوگوں نے یہ کہا کہ ایسے خصی بکرے کی قربانی نہیں ہوسکتی ، ان کا کہنا غلط ہے ، اور ایسے لوگوں کو چاہیے بغیر علما سے پوچھے مسئلہ بتانے سے گریز کیاکریں ، اور غلط مسئلہ بتانے کی وجہ سے توبہ بھی کریں۔ (فتاویٰ عالمگیری ، 5 / 367 ، فتاویٰ رضویہ ، 20 / 458)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــہ
مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
(2)قربانی کا جانور خریدنے کے بعد دیگر افراد کو شریک کرنا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی صاحبِ نصاب یا شرعی فقیر شخص قربانی کی نیت سے گائے یا اُونٹ خریدلے تو کیاخریدنے کے بعد اس میں دیگر افراد کو شریک کرسکتا ہے؟(سائل : محمد احمد ، کراچی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعی فقیر نے اگر قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اس کے لئے وہ جانور متعین ہوگیا اب اس پر وہی جانور قربان کرنا واجب ہےنہ اسے بدل سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کسی کو شریک
کرسکتا ہے۔
البتہ اگر غنی نے جانور خریدا تو اس پر وہی جانور قربان کرنا واجب نہیں بلکہ وہ اسی کی مثل یا اس سے قیمتی جانور سے بدل بھی سکتا ہے اور اس میں دیگر افراد کو شریک بھی کرسکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر جانور خریدتے وقت اس کی نیت یہ تھی کہ اسے اپنی طرف سے ہی قربان کرے گا تو اب اس میں دیگر افراد کو شریک کرنا مکروہ ہے اگرچہ پھر بھی قربانی سب کی ہوجائے گی اور اگر خریدتے وقت ہی نیت تھی کہ کوئی شریک ملا تو شامل کرلوں گا تو اب کسی کو شریک کرنا بلا کراہت جائز ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری ، 5 / 304 ، بہارِ شریعت ، 3 / 351)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب مصدق
سید مسعود علی عطاری مدنی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی
(4)مسافر کی قربانی کا حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی صاحبِ نصاب شخص ایامِ نحر کے پہلے دو دن تک تو مقیم ہے لیکن آخری دن اس نے سفر کرنا ہے اور وہ سارا دن اس کا سفر میں گزرجائے گا تو کیا اس صورت میں اس پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟(سائل : محمد جمشید)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قربانی کے واجب ہونے کیلئے قربانی کی دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ چونکہ مقیم ہونا بھی شرط ہے اور قربانی میں وجوب یا عدمِ وجوب میں آخری وقت کا اعتبار ہے ، لہٰذا اگر صاحبِ نصاب شخص آخری وقت میں مسافر ہوجاتا ہے تو قربانی اس پر واجب نہیں ہوگی۔ (بدائع الصنائع ، 4 / 196 ، محیط برہانی ، 6 / 87)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب مصدق
ابومحمد محمد فرازعطاری مدنی ابومحمد علی اصغرعطاری مدنی
Comments