حضرت سیّدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بارگاہِ فاروقی میں کچھ لباس لائے گئے ، حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو لوگوں میں بانٹنا شروع کیا ، تقسیم کے دوران ایک بہت ہی نفیس اور عمدہ پوشاک سامنے آئی تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے وہ پوشاک اپنی ران کے نیچے رکھ لی (اور کسی کو نہیں دی ) حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ تقسیم میں جب میرا نام لیا گیا تو میں نے کہا : آپ مجھے وہی پوشاک دیجئے ، اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم! میں یہ پوشاک اس شخص کو دوں گا جو تم سے بہتر ہے اور اس کا باپ تمہارے باپ سے بہتر ہے ، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک صحابیِ رسول کو بلوایا اور وہی عمدہ پوشاک انہیں پہنادی۔ ([i])
پیارے اسلامی بھائیو! یہ نفیس اور عمدہ پوشاک پہننے والے اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک ، بارگاہِ فاروقی میں بلند مقام پانے والے ، غَسِیْلُ المَلَائِکَہحضرت سیّدنا حَنْظَلَہ کے صاحب زادے حضرت سیّدنا عبداللہ بن حنظلہ انصاری رضی اللہ عنھما ہیں ، ان کے والدِ ماجد حضرت حَنْظَلَہ رضی اللہ عنہ نے شوال 3 ہجری غزوۂ اُحُد میں تاجِ شہادت اپنے سر پر سجایا تھا اور فرشتوں نے انہیں غسل دیا تھا۔ ([ii]) حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ اپنے والدِ ماجد کی شہادت کےنو ماہ بعد سِن 4 ہجری میں پیدا ہوئے۔
ذکرِ مصطفےٰ : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری وفات کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر سات سال تھی اس لئے آپ کا شمار کم سِن صحابہ میں ہوتا ہے([iii])مگر آپ کے سینے میں مَحَبّتِ رسول کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جن لمحات میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی یا صحبت پائی ان لمحات کو آپ کے دل و دماغ نے محفوظ کرلیا تھا چنانچہ فرماتے ہیں : میں نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اونٹنی پر طواف کرتے دیکھا ہے ، اس وقت کسی کو مارا گیا نہ دھکا دیا گیا اور نہ ہی “ ہٹ جاؤ ، ہٹ جاؤ “ کی آوازیں تھیں۔([iv])
بستر نہ تھا : حضرت عبدُ اللہ رضی اللہ عنہ نہایت عالم فاضل ، نیکوکار ، عظمت وشان والے اور عالی نسب ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سادہ طبیعت اور عبادت گزار بھی تھے ، آپ کے خادم کہتے ہیں : حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی ایسا بستر نہیں تھا کہ جس پر سوتے ، جب نماز پڑھتے پڑھتے تھک جاتے تو اپنے آپ کو زمین پر ڈال دیتے اور اپنی چادر اور زرہ کا تکیہ بنالیتے اور تھوڑی دیر کے لئے سو جاتے۔ ([v])
دوزخ کی یاد : ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ بیمار تھے کہ کسی شخص نے قراٰن کی یہ آیت پڑھی : لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍؕ- (ترجمۂ کنزالایمان : اُنھیں آگ ہی بچھونا اور آگ ہی اوڑھنا) ([vi]) تو رونے لگے ، اتنا روئے کہ لوگوں کو گمان ہونے لگا کہ اب آپ کی روح جسم سے نکل جائے گی ، پھر آپ کھڑے ہوئے تو کسی نے کہا : آپ بیٹھے رہئے ، فرمایا : دوزخ کی یاد مجھے بیٹھنے سے روک رہی ہے ، مجھے نہیں معلوم کہ شاید میرا شُمار ان جہنمیوں میں ہو۔ ([vii])
یزید کے خلاف اعلانِ جنگ : آپ کے سات یا آٹھ بیٹے تھے جب آپ اپنے بیٹوں کولے کر یزید کے پاس پہنچے تو اس نے آپ کو ایک لاکھ درہم اور آپ کے ہر بیٹے کو 10 ہزار درہم دئیے ، قیمتی ملبوسات اور عمدہ سواریاں اس کے علاوہ تھیں ، یہ سب لے کر آپ مدینے پہنچے تو لوگوں نے پوچھا : آپ نے یزید کو کیسا پایا؟ارشاد فرمایا : میں اس شخص کے پاس سے آیا ہوں کہ خدا کی قسم!اگر میرے ساتھ صرف میرے بیٹے ہوں تو بھی میں اس سے ضرور جہاد کروں گا ، لوگوں نے پھر کہا : ہمیں معلوم ہوا کہ یزید نےآپ کو بہت مال و دولت اور خادم دیئے ہیں ، فرمایا : میں نے مال اس لئے لیا ہے تاکہ اسی مال کے ذریعے اس سے مضبوط جنگ کروں ، ([viii]) اس کے بعد آپ نے جہاد کی ترغیب دلائی : اے میری قوم اللہ سے ڈرو ، خدا کی قسم! ہم یزید کے خلاف اس لئے جہاد کر رہے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ یزید کی بُری حرکات اور بدکاریوں کی وجہ سے کہیں آسمان سے پتھر نہ برس جائیں وہ شراب پیتا ہے اور نمازیں قضا کردیتا ہے اللہ کی قسم! اگر کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا تو پھر بھی میں رضائے الٰہی کے لئے اس آزمائش کو ضرور جھیلوں گا ، یہ سنتے ہی لوگ آپ کی بیعت کرنے لگے۔ ([ix])
سر اُٹھانا چھوڑ دیا : ایک روایت کے مطابق (واپس آنے کے بعد) آپ رضی اللہ عنہ مسجد میں ہی اپنی راتیں گزارنے لگے ، مسلسل روزہ رکھتے اورصرف سَتّو پی کر روزہ افطار کرتے ، آپ نے اپنے سر کو (شرم ساری کی وجہ سے) آسمان کی طرف اٹھانا چھوڑ دیا تھا۔ ([x])
یزیدی لشکر : یزید کو خبر پہنچی تو اس نے مُسلم بن عُقْبہ کی سربراہی میں ایک لشکر بھیجا اس میں دس ہزار یا بارہ ہزار گُھڑ سوار تھے جبکہ ایک قول کے مطابق 12 ہزار گھڑسواروں کے ساتھ 15 ہزار پِیادہ فوج بھی تھی۔([xi])
جنگ اور نماز : لڑائی شروع ہوئی تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ اتنے پُر سکون تھے کہ لوگ جنگ لڑ رہے تھے اور اونگھنے کی وجہ سے آپ کا سر ڈھلک رہا تھا۔ جنگ اپنے زوروں پر پہنچی تھی کہ ظہر کا وقت ہوگیا آپ نے خادم سے فرمایا : میری پیٹھ کی جانب سے میری حفاظت کرو تاکہ نماز پڑھ لوں۔ آپ نے ظہر کی 4 رکعتیں نہایت توجہ کے ساتھ پڑھیں۔
شہادت : پھر لڑائی میں مصروف ہوگئے آٹھوں بیٹوں میں سے ایک کے بعد ایک راہِ خدا میں اپنا سر کٹواکر شہادت کا لباس پہنتا رہا آپ کو بھی بے شمار زخم لگ چکے تھے آخر کار آپ نے جذبۂ شہادت میں اپنی زرہ اتار پھینکی اور تلوار کی نیام توڑ ڈالی (کہ تلوار واپس نیام میں نہیں رکھوں گا) اور جواں مردی سے دشمنوں کا مقابلہ کرتے کرتے شہادت کا تاج پہن کر اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ اس جنگ کو تاریخ میں واقعہ حَرّہ کے نام سے جانا جاتا ہے یہ افسوس ناک واقعہ سِن 63 ہجری بروز بدھ کو پیش آیا جبکہ ماہِ ذُو الحجّہ ختم ہونے میں ابھی تین دن باقی تھے۔ ([xii])
ظلم و ستم کا بازار : اس کے بعد یزیدی فوج نےقتل و غارت گری اور ظلم وستم کا ایسا بازار گرم کیا کہ اللہ کی پناہ !یزیدی فوج تین دن تک مدینے میں لوگوں سے مال و دولت لوٹتی رہی اور پاکباز عورتوں کی عصمت دری کرتی رہی ، 700 مہاجر و انصار صحابہ علیہمُ الرِّضوان کو شہید کیا ، عام باشندے ملاکر دس ہزار سے زیادہ شہیدکئے گئے ، جن میں 700 حُفّاظ ِقراٰن بھی تھے یزیدی لشکر نے مسجدنبوی کے ستونوں سے گھوڑے باندھے ، تین دن تک مسجد نبوی میں لوگ نماز سے مُشرّف نہ ہوسکے۔ ([xiii])
قیامت تک کا ساتھ : بعد میں کسی نے حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کو خواب میں بہترین صورت میں دیکھا تو پوچھا : کیا آپ شہید نہیں ہوئے ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیوں نہیں! میں اپنے رب سے مل چکا ہوں اس نے مجھے جنّت میں داخل کردیا ہے اور جہاں چاہتا ہوں جنّت کے پھلوں کو کھاتا ہوں ، خواب دیکھنے والے نے پھر پوچھا : آپ کے ساتھیوں کا کیا بنا؟ فرمایا : وہ سب میرے جھنڈے تلے میرے ساتھ ہیں اور یہ ساتھ قیامت تک نہیں چھوٹے گا۔ ([xiv])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…مُدَرِّس مرکزی جامعۃالمدینہ ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments