ایک شخص کافی عرصے بعداپنے اُستاذ(Teacher) کے پاس پہنچا اور کہنے لگا جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں ناکامی ملتی ہے ، مایوس(Disappoint) ہوکر آپ کے پاس آیا ہوں مجھے کامیابی کا کوئی خاص راز (Secret) بتائیں۔ استاذ نے کہا : بتاتا ہوں! میرے ساتھ قریبی نہر تک چلو۔ نہر کنارے پہنچ کر استاذ بولا : میرے پیچھے پیچھے نہر میں اُترو ، وہ شخص پہلے تو گھبرایا لیکن پھراستاذ کے ساتھ نہر میں اتر گیا۔ جب دونوں نہر (Canal) کے درمیان میں پہنچے تو پانی ان کے سینے تک پہنچنے لگا تھا ، استاذ نے اس شخص کو رُکنے کا اشارہ کیا ، پھر اچانک اس کا سر پکڑا اور پوری طاقت کے ساتھ پانی میں غوطہ دیا ، اس شخص نے خود کو چُھڑانے کیلئے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن بے سُود کیونکہ استاذ کی گَرِفت بہت مضبوط تھی ، کافی دیر تک وہ شخص پانی کے اندر رہا ، جب اس کی جان پر بننے لگی تو اس نے بھرپُور زور لگایا اور اپنا سر پانی سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے ایک لمبی اور گہری سانس لے کر اپنے پھیپھڑوں میں ہوا بھری۔ جب اس کی طبیعت بحال ہوئی تو اُستاذ نے پوچھا کہ جب تم پانی کے اندر تھے تو تمہیں شدّت سے کس چیز کی طلب تھی ، وہ شخص بولا! مجھے صرف اور صرف تھوڑی سی ہوا (Air) چاہئے تھی تاکہ میں سانس لے سکوں۔ استاذ نے بولنا شروع کیا : یہی بات میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ جب ہم کسی چیز کو سچے دل سے طلب کرتے ہیں ، شدّت سے چاہتے ہیں تو ہم اپنا مقصد پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا جب تمہیں کسی مقصد میں کامیابی اسی لگن سے درکار ہوگی جس شدّت سے آج تھوڑی سی ہوا درکار تھی تو کامیابی کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے ۔
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! جس طرح برف باری کے موسم میں چھوٹی سی موم بتی سے کمرے کو گرم نہیں کیا جاسکتا اسی طرح ناقص اور کمزور طلب سے مقاصد میں کامیابی ملنا بہت دشوار ہے۔ ربِّ کریم کی عطا کے بعد کامیابی کی پہلی سیڑھی اپنے مقصد سے سچّی لگن (Devotion) ہونا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کئی لوگوں کی آمدنی کم ہوتی ہے لیکن وہ اپنا ذاتی مکان بنانے کی ٹھان لیتے ہیں تو برسوں کی کوشش کے بعد اپنا مکان تعمیر کرنے میں کامیاب ہوہی جاتے ہیں ، اس طرح کئی طلبہ امتحانات میں کئی بار ناکام ہونے کے بعد سچّی لگن کی بدولت کامیابی کا مقصد حاصل کرہی لیتے ہیں ، ابتدائی ایّام میں کاروباری ناکامیوں کا شکار ہونے والا شخص ایک وقت آتا ہے کہ وہ اپنی سچّی لگن کی وجہ سے کامیاب تاجر کہلاتا ہے۔ مارکیٹنگ ، ڈرائیونگ ، کوکنگ ، ٹیلرنگ اور دیگر شعبوں میں اس طرح کی درجنوں مثالیں ہمیں اپنے اِرْدگِرْد مل جائیں گی ۔
سچّی لگن کو دلیل درکار ہے : شاید آپ کے دل میں یہ خیال آئے کہ ہم بھی تو دل سے اپنی کامیابی چاہتے ہیں لیکن ناکام کیوں رہتے ہیں! تو گزارش ہے کہ سچی لگن کے دعویٰ (Claim) کو شدیدمحنت و کوشش کی دلیل (Proof) درکار ہے ، اگر آپ کی محنت وکوشش محض اپنے والدین یا باس یا بزنس پارٹنر کو مطمئن کرنے کے لئے ہے تو اس چھوٹے لیول کی محنت سے بڑی کامیابی ملنا مشکل ہے لیکن جب آپ اپنی محنت میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور اپنی کارکردگی سے خود مطمئن ہوں گے تو قدرت آپ کے لئے کامیابی کے دروازے کھول دے گی ، اِنْ شَآءَ اللہ ۔
مقصود حاصل ہوگیا : حضرت سیّدنا شاہ آلِ محمد رحمۃ اللہ علیہ (مارہرہ شریف ، ھند) کی خدمت میں ایک صاحب حاضر ہوئے جو کئی خانقاہوں (یعنی طریقت وتصوف کی تربیت گاہوں) میں مُجاہدے اور ریاضتیں کرچکے تھے ، انہوں نے حضرت سیّدنا شاہ آلِ محمد رحمۃ اللہ علیہ سے فریاد کی کہ اتنے برس ہوگئے مقصود (Purpose) حاصل نہیں ہوتا! آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خانقاہ شریف کے ایک کمرے میں ان کے ٹھہرنے کا انتظام کیا اور خادِم کو الگ بُلاکر حکم دیا کہ انہیں مچھلی (Fish)کھانے کو دی جائے اور پانی کا ایک قطرہ نہ دیا جائے اورکھانا کھانے کے بعد فوراً دروازہ باہر سے بند کردیا جائے۔ نمازِ عشا کے بعدخادم نے مچھلی دی جب وہ کھا چکےتو خادم فوراً دروازے کی زنجیر باہر سے بند کرکے چلا گیا ، اب یہ اندر سےچِلّاتے ہیں کہ مجھے پانی دیاجائے مگروہاں تھا کون جو سنتا! صبح فجر کے وقت خادم نے کمرہ کھولا ، کھلتے ہی پانی کی طرف بھاگے اور جس قدر پیاگیا خوب پیا۔ نماز کے بعد حضرت سیّدنا شاہ آلِ محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : خیریت ہے؟ عرض کی : حضور! رات تو خادموں نے مار ہی ڈالا تھا کہ مجھے ایسی گرمی میں ایک تو مچھلی کھانے کو دی ، دوسرے ایک قطرہ پانی کا نہ دیا اور پیاسا ہی کمرے میں بند کردیا۔ فرمایا : پھر رات کیسی گزری ؟عرض کی : جب تک جاگتا رہا پانی کا خیال! جب سویا توسوائے پانی کے اور کچھ نہ دیکھا۔ حضرت سیّدنا شاہ آلِ محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : طلبِ صادق(سچی طلب) اِسی کا نام ہے کبھی اُس مقصد کے لئے ایسی طلب بھی کی تھی جس تک نہ پہنچنے کی آپ شکایت کرتے ہیں! وہ مُجاہدات کئے ہوئے تھے ، اس لئے دل صاف تھا ، نفس کا جو دھوکا تھا فوراً کُھل گیا اور بالآخرانہیں مقصود حاصل ہوگیا۔ (ماخوذ از ملفوظات اعلیٰ حضرت ، ص470)
پیارےاسلامی بھائیو! ہم اپنی زندگی کے مختلف مراحل (Different stages of life)میں کھانے پینے ، رہائش ، سواری ، پڑھائی لکھائی ، شادی بیاہ ، سیر وتفریح ، نوکری ، کاروبار اور روپے پیسے کے حوالے سے مختلف قسم کے مقاصد اپناتے اور انہیں حاصل کرنے کی تمنا کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بُھولنا چاہئے کہ جو زندگی ہمیں ملی ہے ، اس کا بھی کوئی مقصد ہے جسے ہم نے پورا کرنا ہے ، اس مقصد کا بیان قراٰنِ حکیم کی ان دو آیات میں موجود ہے : (1) وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) ترجمۂ کنزالایمان : اور میں نے جِنّ اور آدمی اِتنے ہی(اِسی)لئے بنائے کہ میری بندگی کریں۔ (پ 27 ، الذٰریٰت : 56) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) (2) الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ- ترجمۂ کنزالایمان : وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہوتم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے ۔ (پ29 ، الملک : 2) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اپنے خالق ومالک کی عبادت کا حق ادا کرنا اور اچھے کام کرنا اس زندگی کا مقصد ہے ، تو جس طرح دیگر مقاصد میں کامیابی کے لئے سچی لگن درکار ہے ویسی لگن اس مقصد کے حصول میں بھی چاہئے ہو گی ۔ ہمارے بُزرگانِ دین نے مقصدِ حیات کو پورا کرنے کے لئے سچی لگن(True devotion) کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ، چنانچہ *سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے قاتلانہ حملہ ہونے کے بعد شدید زخمی حالت میں بھی نماز ادا فرمائی *حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ باغیوں کے گھیرے میں تھے لیکن اپنی شہادت کے وقت تلاوتِ قراٰن کر رہے تھے *حضرت کَہمَس بن حسن رحمۃ اللہ علیہ روزانہ 1000 نوافل پڑھاکرتے جب فارغ ہوتے تو چلنے کی سکت باقی نہ رہتی *حضرت صَفوان بن سُلیم رحمۃ اللہ علیہ گرمیوں میں بغیر پنکھے کے کمرے کے اندر اور سردیوں میں چھت پر آرام کرتے تاکہ عبادت کے لئے جاگنے میں دُشواری نہ ہو *حضرت سَہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ اتنے کمزور ہوگئے کہ کھڑے نہ ہوسکتے تھے لیکن جب نماز کا وقت آتا تو شوقِ عبادت میں لوہے کی سلاخ کی طرح سیدھے کھڑے ہوجاتے *امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ کی عمرِ مبارک 70 برس کے قریب تھی لیکن اس عمر میں کبھی ان کی تکبیرِ اُولی بھی فوت نہیں ہوئی۔
پیارے اسلامی بھائیو!دوسری طرف ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں اپنے مقصدِ زندگی سے لگن کی کیفیت معلوم ہوجائے گی کہ روزانہ پانچ فرض نمازیں ہم سے نہیں پڑھی جاتیں ، رمضان کے روزے ہم سے نہیں رکھے جاتے ، زکوٰۃ کی ادائیگی کا ہمیں ہوش نہیں ، حج فرض ہوچکا لیکن ہمارے پاس سفرِ حج کے لئے وقت نہیں ، تلاوتِ قراٰن کا ہمیں موقع نہیں ملتا ، ان سب کے باوجود بھی ہم اس خوش فہمی میں ہیں کہ ہم اپنے مقصدِ حیات کو پانے میں مخلص اور سچےّ ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ عارضی مقاصد کی وجہ سے اپنی زندگی کے حقیقی مقصد(Real purpose) کو نہ بُھولیں اور اپنی زندگی میں ہر اس چیز کو داخل ہونے سے روک دیں جو ہمیں اپنے ربِّ کریم کی عبادت سے روکے ۔
اللہ پاک ہمیں نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…مُدَرِّس مرکزی جامعۃالمدینہ ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments