سَر راشد ایک مشہور اسکول میں سینئر ٹیچر تھے ، ان کی کلاس میں ایک نیا اسٹوڈنٹ شکیل داخل ہوا جس کے والد اس شہر میں ٹرانسفر ہوکر آئے تھے۔ دوچار دن تو سب ٹھیک رہا لیکن پھرشکیل اَفسُردہ اور اُداس اُداس رہنے لگا۔ کلاس کے دوران بھی اکثر اس کی توجُّہ کہیں اور ہوتی۔ کچھ دن مزید گزرے تو وہ اپنے کلاس فیلوز سے غصے میں بات کرنے لگا ، ایک مرتبہ تووین ڈرائیور سے بھی اُلجھ پڑا۔ سرراشد نے اسے اشاروں میں کئی وارننگز دیں لیکن شکیل کا رویّہ نہ بدلا۔ اس دن اُویس سے جگہ کے مسئلے پر اس کا جھگڑا ہوا تھا اور ہاتھاپائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اُویس کو سمجھانے کے بعد سرراشد نے شکیل کو اسٹاف روم میں بُلایا اور بڑی شفقت سے کہنے لگے : دیکھو شکیل بیٹا! تم پڑھے لکھے گھرانے کےلگتے ہو اور تمہارا پچھلا تعلیمی ریکارڈ بھی شاندار ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارا رویّہ تمہاری شخصیت کے بالکل اُلٹ ہے ، غصے سے بات کرنا ، سبق پر توجّہ نہ کرنا اور پھر آج کا جھگڑا! آخر ایسا کیوں ہے؟ شکیل نے مختصر جواب دیا : سر! میں کیوں کسی سے نرمی سے بات کروں ، میری کسی کو کیا پرواہ ہوسکتی ہے! سرراشد نے اسے سمجھایا : نہیں بیٹا! ایسا نہیں کہتے ، اگر کوئی تمہاری بات نہیں سنتا تو تم اپنے والدین (Parents) ، بھائی بہنوں سے اپنی پریشانی شیئر کرسکتے ہو۔ شکیل تقریباً چیخ پڑا : سر! آپ جن سے پریشانی بیان کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ، ان کے پاس تو مجھ سے بات کرنے کے لئے ٹائم ہی نہیں ہے ، امّی مجھے کچن اور صفائی ستھرائی میں مصروفیت کا کہہ کرابّو کے پاس بھیج دیتی ہیں اور ابوسے بات کرنے کی کوشش کروں تو وہ کہتے ہیں کہ ابھی ٹائم نہیں ہے میں آفس سےتھکاہارا گھر آیا ہوں ، جب ان کی تھکاوٹ اُترتی ہے تو وہ دفتر کی فائلیں یا موبائل لے کر بیٹھ جاتے ہیں یا پھرٹی وی آن کرلیتے ہیں ، آپ حیران ہوں گے ابوکئی مرتبہ یہ تک بھول جاتے ہیں کہ میں کس کلاس میں پڑھتا ہوں! صفائی ہوجانے اور کھانا پک جانے کے بعد امی کے پاس پہنچوں تووہ فون پر اپنی سہیلیوں کی باتیں سننے میں مصروف ہوتی ہیں اوراشارے سے ہی مجھے بعد میں بات کرنے کا کہہ دیتی ہیں ، رہے بڑے بھائی تو وہ بڑا آدمی بننے کے لئے اپنے کمرے میں بند پڑھائی میں مگن رہتے ہیں ، ان کا دروازہ بجاؤں تو ان کے پاس بھی میرے لئے ٹائم نہیں ہوتا وہ مجھے امی ابوکے پاس جانے کا کہتے ہیں۔ اتنا کہنے کے بعد شکیل تھوڑا رُکا ، پھر کہنے لگا : سر! اب آپ ہی بتائیے کہ جب گھر میں کسی کے پاس میرےلئے ٹائم ہی نہیں ہے تو میں کس سے اپنے مسائل ڈسکس کروں! اپنی خوشی غمی کس سے شیئر کروں؟ سرراشد اس کی پرابلم سمجھ چکے تھے ، کہنے لگے : بیٹا !امی ابو کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کہتے ، میں خود تمہارے ابوسے ملکر بات کروں گا ، اِنْ شَآءَ اللہ سب بہتر ہوجائے گا۔
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین ! آپ نے دیکھا کہ مذکورہ اسٹوری میں ’’ٹائم نہیں ہے‘‘ ، ’’ٹائم نہیں ہے‘‘ کی تکرار نے ایک اسٹوڈنٹ کی زندگی میں کیسی نفسیاتی تباہی مچائی! اس وقت “ ٹائم نہیں ہے “ کی مجبوری نے ہماری گھریلو اور معاشرتی زندگی کو گھیر رکھا ہے مثلاً *بیٹا باپ سے کہتا ہے کہ آج دارُالمدینہ اسکول میں ہمارا رزلٹ اناؤنس ہوگا آپ بھی میرے ساتھ چلئے لیکن باپ کہتا ہے کہ تم خود ہی وصول کرلینا میرے پاس ٹائم نہیں ہے *بہن بھائی سے کہتی ہے کہ مجھے آج جامعہ جانے میں تاخیر ہوگئی ہے ، بائیک پر چھوڑ آؤ تو جواب ملتا ہے میرے پاس ٹائم نہیں ہے *بیٹی باپ سے کہتی ہے : ابو! ریاضی (Math) کا سوال سمجھ نہیں آرہا تھوڑا سمجھا دیجئے تو جواب ملتا ہے ٹائم نہیں ہے *اولاد رزلٹ شیٹ باپ کی طرف بڑھاتی ہے تاکہ وہ اسے دیکھے اور ان کی کمی یا خوبی پر بات کرے لیکن باپ سرسری سی نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ میرے پاس ٹائم نہیں ہے *بچّے اپنی مشکلات باپ سے ڈسکس کرناچاہتے ہیں اسے اپنی خوشیوں میں شریک کرنا چاہتے ہیں لیکن باپ کے پاس ٹائم نہیں ہے *بوڑھے ماں باپ چاہتے ہیں کہ بیٹا کچھ دیر ان کے پاس بیٹھے ، پیار کے میٹھے بول بولے لیکن بیٹے کے پاس ٹائم نہیں ہے وہ تو اسی پر مطمئن ہے کہ میں نے انہیں ضرورت کی ساری چیزیں مہیّا کررکھی ہیں *بیوی اطلاع دیتی ہے کہ فلاں عزیز کی فوتگی (Death) ہوگئی ہے جنازے پر چلے جائیے تو شوہرِ نامدار کے پاس جنازے میں شرکت کا ٹائم نہیں ہوتا فقط موبائل پر تعزیتی پیغام (Message) بھیج کر دامن چُھڑالیتے ہیں *کوئی مدد کا محتاج بار بار آپ کو میسج یا واٹس ایپ کرتا ہے لیکن آپ جناب کے پاس تسلی کے دوبول رپلائی میں لکھنے کا ٹائم نہیں ہوتا *گھر میں بجلی کے سوئچ خراب ہیں یا بلب فیوز ہے یا گیس کے چولہے کا بٹن خراب ہے لیکن بیوی کی بار بار یاد دہانی کے باوجود شوہر محترم کے پاس انہیں ٹھیک کروانے کا ٹائم نہیں ہوتا *اسکوٹر یا کار میں چھوٹی چھوٹی خرابیاں پیدا ہوکر جمع ہوتی رہتی ہے لیکن ان کے مالک کے پاس ٹھیک کروانے کا ٹائم نہیں ہوتا *گھر کا چوکیدار چوبیس گھنٹے رکھوالی کرتا ہے لیکن صاحب کے پاس پچیس سیکنڈ کا ٹائم نہیں ہوتا کہ اس کا حال چال دریافت کرلے یا اس سے مُسکراہٹوں کا تبادلہ ہی کرلے *نیکی کی دعوت دینے والا کوئی مبلغ چند منٹ کے لئے درسِ فیضانِ سنّت میں بیٹھنے کی دعوت دے یا تھوڑی دیر کیلئے بات سننے کو بولے تو جواب ملتا ہے ابھی ٹائم نہیں ہے پھر کبھی سہی۔
پیارے اسلامی بھائیو! ہر دوسرے شخص کو “ ٹائم نہیں ہے “ کا عذر بیان کرنے والے کو غور کرنا چاہئے کہ اس کا یہ تکیہ کلام مستقبل میں اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ بچّے اپنے مسائل اپنے ہی جیسے ناتجربہ کاروں سے بیان کریں گے تو انہیں مشورے بھی عجیب وغریب ہی ملیں گے ، یہی بچّے جب بڑے ہوکر اسے ٹائم نہیں دیں گے یا اس کے گھر فوتگی ہونے پر کوئی نہیں آئے گا تو اس کے دل پر کیا گزرے گی! بوڑھے ماں باپ دنیا سے چلے جائیں گے تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگا ، آج کسی دُکھیارے کا دُکھ بانٹنے کے لئے اس کے پاس وقت نہیں جب کبھی اسے صدمہ پہنچے گا تو تسلی کے دوبول سننے کو ترس جائے گا ، آج اس کے پاس چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل کے حل کیلئے وقت نہیں ، جب یہ مسائل وقت گزرنے پر پہاڑ بن کر سامنے آئیں گے تواس کے اوسان خطا ہوسکتے ہیں۔
اس پر ایک اور پہلو سے بھی سوچئے کہ کہیں ایسا تو نہیں جہاں ہمارا مَفاد یا دلچسپی نہیں ہوتی وہاں ہمیں “ ٹائم نہیں ہے “ کا بہانہ یاد آجاتا ہے ، ہم وہ وقت اس سے کم اہم کام میں صرف اس لئے خرچ کردیتے ہیں کہ اس میں ہمیں دلچسپی ہوتی ہے تو جان لیجئے کہ ایسی صورت میں مسئلہ ترجیح دینے (Priority) کا ہے وقت کا نہیں ہے ، ہمیں اپنی ترجیحات پر نظر ِثانی کرلینی چاہئے کیونکہ قیامت کے دن اس بات کا بھی سوال ہوگا کہ اپنا وقت کہاں خرچ کیا؟ اسی طرح بعض لوگوں کو نماز پڑھنے کا ٹائم نہیں ملتا وجہ یار دوستوں کی منڈلیاں اور گپ شپ ہوتی ہے ، کسی کو41 منٹ کا بیان سننے کی دعوت دی جائے تو ٹائم نہیں لیکن یہی شخص گھر جاکر دو ڈھائی گھنٹے کی فلم دیکھنے بیٹھ جاتا ہے ، بعضوں کے پاس فرض علمِ دین سیکھنے کا ٹائم نہیں ہوتا لیکن رومانوی ناول اور ڈائجسٹ پڑھنے کے لئے وقت مل جاتا ہے ، کچھ نوجوانوں کے پاس دوستوں کو دینے کےلئے وقت ہوتا ہے سگے بھائیوں کے لئے نہیں!یہاں بھی پرابلم فوقیت دینا ہے۔
بہرحال ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے بیوی بچّوں ، ماں باپ ، بہن بھائی اور قریبی رشتہ داروں کو حسبِ موقع ، حسبِ ضرورت وقت دینا چاہئے اور ’’خود کو بھی ٹائم دینا چاہئے‘‘ وہ اس طرح کہ گناہوں اور فضولیات میں وقت برباد کرنے کے بجائے ہم اپنا وقت اپنی آخرت بہتر بنانےکے لئے علمِ دین سیکھنے اور اللہ کی عبادت کرنے کے لئے صرف کریں ۔ اللہ کریم ہمیں وقت کا درست استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments