اچّھے اَخلاق بندے کی سعادت مندی کا پتا دیتے ہیں جیسا کہ حُسْنِ اَخلاق کے پیکر ، مَکارمِ اَخلاق کی بلندیوں کے رَہبر ، نبیِّ محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مِنْ سَعَادَۃِابْنِ آدَمَ حُسْنُ الْخُلُقِ یعنی حُسنِ اَخلاق بندے کی سعادت مندی میں سے ہے۔ ([i]) اور بُرے اَخلاق دین و دنیا کے نقصانات پہنچانے میں کوئی کَسر نہیں چھوڑتے۔
حُسنِ اَخلاق اور بَداَخلاقی کی تعریف : بَداخلاقی کے نقصانات بیان کرنے سے پہلے اَخْلاق کی تعریف (Definition) ذہن نشین کرلیں ، چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر نفس میں موجود ایسی کیفیت ہو کہ اس کےباعث اچّھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اُسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سےبُرے اَفعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں تو اسےبداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ([ii])
بداخلاقی کے دنیوی اور اُخروی نقصانات : کسی بھی چیز سے بچنے اور بچانے کیلئے اس کے نقصانات کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے اور بداَخلاقی تو ایسی بُری صفت ہے کہ اس کے دنیوی اور اُخروی دونوں طرح کے نقصانات ہیں ، اُن میں سے چند ایک مُلاحَظہ کیجئے : (1)بداَخلاقی جہنّم میں جانے کا سبب ہے : حضرت سیّدنا ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنّت میں (لے جانے والا) ہے ، فحش گوئی ، بداخلاقی کی ایک شاخ ہے اور بداخلاقی جہنّم میں (لے جانے والی) ہے۔ ([iii]) منقول ہےکہ “ اِنَّ الْعَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ سُوْ ءِ خُلُقِہٖ اَسْفَلَ دَرْکَ جَھَنَّمَ “ یعنی انسان اپنے بُرے اخلاق کے سبَب جہنَّم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔ ([iv]) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی : ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہےتوآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنّمیوں میں سے ہے۔ ([v]) (2)بداخلاقی عمل کوخراب کردیتی ہے : بد اخلاقی عمل کو اس طرح خراب کردیتی ہے جس طرح سِرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔ ([vi]) (3)نیک لوگ بداخلاق کواپنا رفیق نہیں بناتے : حضرت سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر کوئی اچّھے اخلاق والا فاسق میرا رفیق ِسفر ہو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ کوئی بداخلاق عابد میرا رفیقِ سفر ہو۔ ([vii]) حضرت سیّدنا جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے پاس اگر خوش اَخلاق فاسق بیٹھے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ بد اخلاق قاری (عالم) بیٹھے۔ ([viii]) (4)نیکیوں کی کثرت فائدہ نہیں دیتی : حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن مُعاذرازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بداخلاقی ایک ایسی آفت ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے نیکیوں کی کثرت بھی فائدہ مند نہیں ہوتی۔ ([ix])
اللہ پاک نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں بداخلاقی اور اس کے نقصانات سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین
نام : محمداَنصرخان عطّاری مدنی
(مدرس جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کوٹ مومن ، سرگودھا)
Comments