گھرٹوٹنے سے بچائیے!

ماہنامہ نومبر 2021

از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

آج کل ہمارے معاشرے میں گھر ٹوٹنے یعنی طلاق کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں ، اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور اس میں میاں بیوی کی نادانیاں بھی شامل ہیں۔ ان نادانیوں میں تیز غصہ ، قوتِ برداشت کی کمی ، بداَخلاقی ، معمولی باتوں پر بحث و تکرار ، لڑائی جھگڑا اور مار پیٹ وغیرہ شامل ہیں ، ان اسباب کی وجہ سے بالآخر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ ناچاقی کی صورت میں بیٹی کے غلطی پر ہونے کے باوجود بعض والدین اپنی بیٹی ہی کی طرف داری کرتے ، اسے مزید اُکساتے اور پھر طلاق کے بعد بیٹی کے گھر بیٹھ جانے کی صورت میں خوب پچھتاتے بھی ہیں۔ بالفرض! اگر میری (یعنی سگِ مدینہ کی) بیٹی مجھ سے کہے کہ شوہر نے مجھے گھر سے نکل جانے کاکہہ دیا ہے ، اب میں کیا کروں؟ تو میں اسے کہوں گا کہ شوہر کے قدموں میں گر کر اُس سے معافی مانگ لو اور اپنا گھر ٹوٹنے سے بچاؤ۔ اس بات کو یوں سمجھئے کہ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے گھر سے نکل جانے کا کہے تو سمجھ دار بیٹا اپنے باپ سے رو رو کر معافیاں ہی مانگے گا ہر گز گھر چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ وہ والدین خطا پر ہیں جو شوہر سے لڑ کر اُس کا گھر چھوڑ کر گھر آنے والی بیٹی کی حوصلہ افزائی کرتے ، شوہر ، ساس اور نندوں سے مزید لڑنے پر اُکساتے بلکہ کئی افراد کو ساتھ لے کر بیٹی کے شوہر اور سسرال والوں سے لڑنے پہنچ جاتے ہیں۔ یاد رکھئے! عورت اگر اپنے سُسرال میں عاجزی کے ساتھ جُھک کر نہیں رہے گی تو اس کے لئے اپنا گھر بسانا مشکل ہوجائے گا ۔ بسااوقات شادی کے بعد شروع شروع میں مسائل ہوتے ہیں لیکن اگر عورت سمجھ دار ہو تو آہستہ آہستہ سسرال میں اپنا مقام بنالیتی ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ پورے گھرانے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی ہے۔ بسااوقات لڑاکے اور بدمعاش قسم کے نوجوان جنہیں پولیس کی مار بھی راہِ راست پر نہیں لاپاتی ، سمجھ دار اورسلیقہ شعار بیوی انہیں شریف انسان بنادیتی ہے۔ عورت اگر شروع ہی سے سسرال میں نرمی ، حکمتِ عملی ، مسکراہٹ اور غصے کا جواب پیار سے دینے کی ترکیب رکھے گی تو اِنْ شَآءَ اللہُ الکریم ایک دن آئے گا کہ یہ اسی گھر کی رانی بنے گی۔ ویسے بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش کی شرح زیادہ ہے ، لڑکی کے لئے اچھا رشتہ تلاش کرنا ایک مشکل کام ہے اور لڑکی کی شادی پر ہونے والے لاکھوں لاکھ بلکہ بعض اوقات کروڑوں روپے کے اخراجات عموماً والدین کی کمر توڑ کر رکھ دیتے ہیں ، ایسے میں شادی کے چند ماہ یا سال بعد شوہر یا سسرال سے نا راض ہو کر لڑکی کا اپنے میکے میں یعنی والدین کے گھر بیٹھ جانا اور معمولی باتوں پر طلاق کا مطالبہ کرنا بربادی نہیں تو کیا ہے؟ شادی کوئی گڑیا گُڈے کا کھیل نہیں کہ بار بار ہوتا رہے۔ آج کل کنواری لڑکیوں کی شادی بڑی مشکل سے ہوتی ہے تو بھلا طلاق یافتہ عورت کو بالخصوص جبکہ اس کی اولاد بھی ہو ، مناسب رشتہ کہاں سے ملے گا! جذبات میں آکر طلاق لینے اور بچوں سمیت ماں باپ کے گھر بیٹھ جانے والی لڑکی کے والدین کا رَویَّہ بھی بسااوقات بیٹی کے ساتھ کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے اور ایسی لڑکی سخت ٹینشن کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے ، اب پچھتانے سے کیا ملے کیوں کہ بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ، اس لئے عورت کو چاہئے کہ ہر ممکن اورجائز راستہ اختیار کرکے اپنا گھر ٹوٹنے سے بچائے اور لڑکی کے ماں باپ وغیرہ بھی غلطیوں پر اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اسے اپنا گھر آباد کرنے ہی کا ذہن دیں۔ اگر میری کوئی مدنی بیٹی اس طرح شوہر ، ساس یا نندوں سے لڑ جھگڑ کر میکے میں جابیٹھی ہے تو اسے میری نصیحت ہے کہ فوراً کوئی حکمتِ عملی بروئے کار لائے ، اپنے گھر واپس جائے اور شوہر ، ساس وغیرہ سے مُعافی مانگ کر اپنا گھر بسائے۔ شوہر وغیرہ کو بھی چاہئے کہ عورت کو نہ صرف مُعاف کریں بلکہ اگر خود انہوں نے بھی اس پر ظلم کیا ہو تو اس سے مُعافی مانگیں۔ یاد رہے! شوہر کا بیوی پر اور ساس کا بہو پر ظلم کرنا بھی ناجائز و حرام اور دوزخ میں لے جانے والا کام ہے۔ شوہر ، بیوی ، سسرال اور میکے والے سب اس بات کو یاد رکھیں کہ طلاق شیطان کا پیارا عمل ہے اور میاں بیوی میں طلاق کے ذریعے بھی شیطان مسلمانوں میں پھوٹ ڈلواتا ، آپس میں لڑواتا اور گناہوں کا بازار گرم کرواتا ہے۔ اللہ کریم ہر مسلمان میاں بیوی کو آپس میں پیار مَحبَّت اور اِتّفاق و اِتّحاد سے رہنے کی توفیق دے اور اپنی رحمت سے جنّت میں بھی انہیں ساتھ رہنا نصیب فرمائے۔

   اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ : یہ مضمون5اپریل2021ء کو عشا کی نماز کے بعد ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے اور ضرورتاً ترمیم کرکے امیرِ اہلِ سنّت کو دکھا کر پیش کیا جارہا ہے۔


Share