فریاد
مرحومین کو تکلیف نہ دیں
(دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری)
ماہنامہ نومبر 2021
حضرت صَدَقَہ بن سُلَیْمَان جَعْفَری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : میری جوانی کےدن تھے ، نیکیوں سے دوری اور گناہوں سے نزدیکی تھی ، اسی دوران میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ، (جس کےسبب) میرےدل کی حالت بدل گئی ، میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اورنیکیوں میں مصروف ہوگیا ، (کچھ عرصے بعد) پھر مجھ سےغلطیاں اور لغزشیں ہونے لگیں ، میں نے اپنےمرحوم والد کو خواب میں دیکھا تو انہوں نے فرمایا : اے میرے بیٹے! میں تجھ سےبہت خوش تھاکیونکہ تیرے اعمال مجھ پرپیش کئے جاتے رہے اور وہ نیک لوگوں کے اعمال جیسے ہوتے تھے ، مگر اس مرتبہ جب تیرے اعمال مجھ پر پیش کئے گئے تومجھے بہت شرمندگی ہوئی۔ مجھے میرے آس پاس کے مُردوں میں رُسوا نہ کیا کر! اس خواب کے بعد حضرت صَدَقَہ بن سُلَیْمَان جَعْفَری رحمۃُ اللہِ علیہ کی زندگی میں انقلاب آگیا اور انہوں نے گناہوں سے توبہ کرکے ہمیشہ کےلئےنیکی کے راستے کو اپنالیا۔ [1]
اےعاشقان رسول! ہمیں اپنی زندگی ایسے گزارنی چاہئے کہ بلااجازتِ شرعی نہ زندہ لوگوں کو ہم سےکسی قسم کی تکلیف پہنچےاورنہ ہی مُردوں کو ، کتنی نالائقی کی بات ہوگی کہ ہمارے اعمال کی وجہ سےہمارےمُردےتکلیف وپریشانی میں آئیں ، مذکورہ واقعہ جہاں ہمیں اس بات کا پتا دے رہا ہےکہ اولاد کی نیکیاں والدین کوقبرمیں خوش کرتی ہیں وہیں ہمیں یہ بھی بتا رہا ہے کہ اولادکے گناہوں کی وجہ سےمرحوم والدین قبر میں تکلیف و پریشانی کا شکارہوتےہیں ، بلکہ احادیثِ طیّبہ میں تو والدین کےساتھ ساتھ دیگرمرحومین رشتہ داروں کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ ہم زندوں کے بُرے اعمال ان کی بھی رنجیدگی کاسبب بنتے ہیں چنانچہ دو فرامینِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے :
(1)پیر اور جُمعرات کے دن اعمال اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور جُمُعہ کے دن انبیائے کرام( علیہم الصّلوٰۃ و السَّلام ) اور آباء اور اُمّہات (یعنی باپوں اور ماؤں) پر پیش کئے جاتے ہیں وہ ان کی نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں اور ان کے چہروں کی سفیدی اور چمک میں اِضافہ ہوتا ہے ، (اور ان کے گناہوں کے سبب غمگین ہوتے ہیں) پس تم اللہ عزّوَجَل سے ڈرتے رہو اور (گناہ کرکے) اپنے مُردوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔ [2] (2)تم اپنے بُرے اعمال کے ذریعے اپنے مُردوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ کہ انہیں تمہارے فوت شدہ قریبی رشتہ داروں پر پیش کیا جاتا ہے۔ [3] اسی وجہ سےصحابیِ رسول حضرت سیِّدُنا ابو دَرداء رضی اللہُ عنہ اپنے ماموں حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن رَواحہ رضی اللہُ عنہ کی شہادت کے بعد اس طرح دعا کیا کرتے تھے کہ’’اے اللہ! میں ایسے عمل سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کی وجہ سے (میرے ماموں) حضرت عبدُاللہ بن رَواحہ رضی اللہُ عنہ کو رُسوا ہونا پڑے۔ “ جبکہ امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہُ عنہ یوں دعا کیاکرتےتھے : ’’اے اللہ ! میں ہر ایسےکام کو کرنے سے تیری پناہ مانگتاہوں جس کی وجہ سے حضرت عبدُاللہ بن رَواحہ رضی اللہُ عنہ کےپاس مجھے رسوا ہونا پڑے۔ “ [4]حضرت سیِّدُنا سَعیدبن جُبَیْر رحمۃُ اللہِ علیہ نے حضرت سیِّدُناعثمان بن عبدُ اللہ بن اَوس رحمۃُ اللہِ علیہ کو ان کی زوجہ کے متعلق نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اے عثمان! اس کے ساتھ بھلائی کیا کرو کیونکہ اس کے ساتھ تمہارا جو بھی برتاؤ ہو گاوہ (تمہارے سُسر) حضرت سیِّدُنا عَمْرو بن اَوس رحمۃُ اللہِ علیہ کو پہنچے گا۔ میں نے پوچھا : کیا زندوں کی خبریں مُردوں کو پہنچتی ہیں؟ فرمایا : ہاں ، ہر رشتے والے کے پاس اس کے رشتہ داروں کی خبریں پہنچتی ہیں اگر اچھی ہوں تو وہ اس سے بہت خوش ہوتے ہیں اور اگر بُری ہوں تو وہ مایوس و غمگین ہوجاتے ہیں۔ [5] جب ابراہیم بن صالح بن علی بن عبدُ اللہ بن عباس ہاشمی فلسطین کے حکمران تھے تواس وقت انہیں تبعِ تابعی بزرگ حضرت سیِّدُنا عَبّاد الخَوّاص رحمۃُ اللہِ علیہ نے نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ زندوں کے اعمال ان کے فوت شدہ رشتہ داروں پر پیش کئے جاتے ہیں ، لہٰذا تم غور کرلو کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں تمہارے کس طرح کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ یہ سُن کر ابراہیم بن صالح اتنا روئے کہ ان کی داڑھی آنسوؤں سے تَر ہوگئی۔ [6] مزید بھی زندوں کے کچھ کام کتابوں میں ذکر کئے گئے ہیں کہ جن کی وجہ سے مُردوں کو تکلیف و پریشانی ہوتی ہے ، مثلاً اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی کو قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا : لَاتُؤْذِ صَاحِبَ ھٰذَا الْقَبْر یعنی اس قبروالے کو ایذانہ دے۔ [7] اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضاخان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اس ایذا کا تجربہ بھی تابعین عظّام اور دوسرے علمائے کرام نے جو صاحبِ بصیرت تھے کرلیا ہے (اور پھر اسی مقام پر امامِ اہلِ سنّت نے قبر پر سر رکھ کر سونے یا ان پر پاؤں رکھنے وغیرہ کے حوالے سے چند واقعات بھی نقل فرمائے ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کاموں کی وجہ سے مُردے کو تکلیف ہوتی ہے)۔ [8] آپ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتےہیں : اُمُّ المؤمنین صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تو میت کے کنگھی کرنے سے منع فرمایا کہ اُسے تکلیف ہوگی۔ [9]حضرت علامہ عبدُ المصطفیٰ اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ جن جن چیزوں سے زندوں کو تکلیف اور ایذاء پہنچتی ہے ان ان چیزوں سے مُردوں کو بھی تکلیف اور ایذا پہنچتی ہے لہٰذا قبروں پر پیشاب ، پاخانہ کرنا یا کوئی گندی چیز ڈالنا یا قبروں کو توڑ پھوڑ کر مِسمار کر دینا یا قبروں کو روندنا یا قبروں پر مکان بنانا یا قبروں پر بیٹھنا یا لیٹنا چونکہ ان باتوں سے مُردوں کو تکلیف اور ایذا پہنچتی ہے اس لئے یہ سب کام ممنوع و ناجائز ہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ مسلمانوں کے قبرستانوں کا احترام کریں اور ہر ان باتوں سے پرہیز رکھیں جن سے قبروں کی توہین اور قبروں کو ایذا پہنچتی ہے۔ [10] یوں ہی میت کو سرد خانے میں نہ رکھا جائے کہ اس سے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ [11] میڈیکل کے طلبہ کا سیکھنے کے لئے انسانی لاشوں پر تجربات کرنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے کیونکہ یہ میت کو تکلیف دینا ہے۔ [12]میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے! کہ اپنی زندگی کاانداز ایسارکھئےکہ آپ کےکسی بھی قول وفعل کی وجہ سےنہ زندہ لوگ تکلیف وپریشانی کاشکارہوں اور نہ ہی مُردوں کو تکلیف ، پریشانی اورپشیمانی کا سامنا کرنا پڑے ، علما فرماتے ہیں : مسلمان زندہ ومردہ کی عزت برابر ہے ، انھیں تکلیف دینا حرام۔ [13]
خُدایا نہ تکلیف کا میں باعث بنوں
تری جنّتوں کا میں وارث بنوں
اللہ پاک ہمیں عمل کی سعادت نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
[1] عیون الحکایات ، ص401
[2] نوادرالاصول ، 1 / 671 ، حدیث : 925 ، التیسیر بشرح الجامع الصغیر ، 1 / 450
[3] موسوعۃ ابن ابی الدنیا ، کتاب المنامات ، 3 / 14 ، حدیث : 2
[4] الزھد لابن المبارک ، ص42 ، حدیث : 165 ، احیاء العلوم ، 5 / 252
[5] الزھد لابن مبارک ، ص151 ، حدیث : 447
[6] حلیۃ الاولیاء ، 10 / 19 ، رقم : 14345
[7] مسنداحمد ، 39 / 476
[8] فتاوی رضویہ ، 9 / 435
[9] فتاوی رضویہ ، 9 / 164
[10] جہنم کے خطرات ، ص148
[11] ماہنامہ فیضان مدینہ ، ربیع الآخر 1440ھ جنوری / دسمبر 2018ء ، ص12
[12] ماہنامہ فیضان مدینہ ، جمادی الاُخریٰ 1442ھ / فروری 2021ء ، ص12
[13] فتاوی رضویہ ، 9 / 453
Comments