تفسیر قراٰنِ کریم

نظامِ کائنات چلانے والے

* مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ نومبر 2021

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : (وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًاۙ(۱)وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًاۙ(۲)وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًاۙ(۳)فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًاۙ(۴) فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًاۘ(۵))ترجَمۂ کنزُ العرفان : سختی سے جان کھینچنے والوں کی قسم اور نرمی سے بند کھولنے والوں کی اور آسانی سے تیرنے والوں کی ، پھر آگے بڑھنے والوں کی ، پھر کائنات کا نظام چلانے والوں کی (اے کافرو! تم پر قیامت ضرور آئے گی)۔ (پ 30 ، النّٰزعٰت : 1تا5) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : ان آیات میں پانچ قسم کی جماعتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ جمہور علماء و مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ سب فرشتوں کی جدا جدا جماعتیں ہیں یا کچھ فرشتوں کی جماعتیں ہیں اور کچھ تمام فرشتوں کے اوصاف ہیں : ( وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًاۙ(۱)) سے مراد سختی سے روح نکالنے والے فرشتے ، (وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًاۙ(۲)) سے مراد نرمی سے مومنوں کی روح نکالنے والے فرشتے ، (وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًاۙ(۳)) سے مراد مومنوں کی روحیں لے کر آسمان میں تیرنے والے فرشتے ، (فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًاۙ(۴)) سے مراد حکمِ الٰہی کی تعمیل میں آگے بڑھنے والے فرشتے اور (فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًاۘ(۵)) سے مراد کائنات کا نظام چلانے والے فرشتے۔

خلاصہِ آیات یہ ہے کہ اُن فرشتوں کی قسم! جو کافروں کے جسموں سے اُن کی روح سختی سے کھینچ کر نکالتے ہیں اور اُن فرشتوں کی قسم! جو مومنوں کے جسموں سے ان کی روحیں نرمی سے قبض کرتے ہیں اور ان فرشتوں کی قسم! جو مومنین کی روحیں لے کر زمین اور آسمان کے درمیان آسانی سے تیرتے ہیں ، پھر اُن فرشتوں کی قسم! جو اپنے مقرر کردہ کام پر جلد پہنچتے ہیں ، پھر اُن فرشتوں کی قسم! جو دنیا کے کاموں کا نظام چلاتے ہیں۔ اِن تمام قَسْموں کے ساتھ محذوف جوابِ قسم یہ ہے کہ اے کفارِ مکہ! تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ (بغوی ، النّٰزعٰت ، تحت الآیۃ : 5 ، 4 / 411)

ہر کام وسیلے کے ذریعے ہونا اللہ تعالیٰ کا قانون ہے :

اللہ تعالیٰ کی قدرت تو یہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا کام کسی وسیلے کے بغیر خود اُسی کے حکم سے ہو جائے ، کیونکہ اُس کی شان ہے : ( اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۸۲)) ترجمہ : اُس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اُس سے فرماتا ہے ، “ ہو جا “ تو وہ چیز ہو جاتی ہے۔ (پ23 ، یٰسٓ : 82) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اُس کی شان ہے : (اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۲۰)) ترجمہ : بیشک اللہ ہر شے پر قادِر ہے۔ (پ1 ، البقرۃ : 20) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اُس کی شان ہے : (فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶)) ترجمہ : (ہمیشہ) جو چاہے کرنے والا ہے۔ (پ30 ، البروج : 16) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اُس کی شان ہے : ( لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ ) ترجمہ : بادشاہی میں اُس کا کوئی شریک نہیں اور یہ(بھی) نہیں کہ کمزوری کی وجہ سے اُس کا کوئی مددگار ہو۔ (پ15 ، بنی اسرائیل : 111) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس تمام عظمت و قدرت کے باوجود اُس کا قانون یہ ہے کہ کام وسیلے سے ہو ، اسی لئے دنیا کا ہر کام ، نظامِ کائنات چلانے پر مقرر فرشتوں کے سِپرد ہے۔

آیت سے معلوم ہوا کہ بعض صِفات اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان لفظی طور پر مُشتَرک ہیں ، جیسے “ علی ، سمیع ، بصیر “ ، اُنہیں میں سے تدبیرِ کائنات بھی ہے ، کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ بھی کائنات کے کاموں کی حقیقتاً تدبیر فرمانے والا ہے اور فرشتے بھی مُدَبِّراتِ اَمر یعنی کاموں کی تدبیر کرنے والے ہیں ، چنانچہ فرشتوں کے تدبیرِ اُمور کے متعلق قرآن مجید میں بکثرت آیات ہیں۔ چند آیات ملاحظہ فرمائیں :

کچھ فرشتے اللہ کا عرش اٹھائے ہوئے ہیں ، فرمایا : (وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىٕذٍ ثَمٰنِیَةٌؕ(۱۷)) ترجمہ : اور اس دن آٹھ فرشتے تمہارے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائیں گے۔ (پ29 ، الحاقۃ : 17) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کچھ فرشتوں کے ذریعے وحی اترتی ہے : (یُنَزِّلُ الْمَلٰٓىٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ(۲)) ترجمہ : اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اس پر فرشتوں کو اپنے حکم سے روح یعنی وحی کے ساتھ نازل فرماتا ہے کہ تم ڈر سناؤ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھ سے ڈرو۔ (پ14 ، النحل : 2) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کچھ فرشتے نامہ اعمال لکھتے ہیں ، فرمایا : (وَ اِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَۙ(۱۰) كِرَامًا كَاتِبِیْنَۙ(۱۱) یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ(۱۲) ) ترجمہ : اور بیشک تم پر ضرور کچھ نگہبان مقرر ہیں۔ معزز لکھنے والے۔ وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔ (پ30 ، الانفطار : 10تا 12) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کچھ فرشتے نگہبانی کرتے ہیں ، فرمایا : (وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةًؕ  ) ترجمہ : اور وہ (اللہ) تم پر نگہبان (فرشتے) بھیجتا ہے۔ (پ7 ، الانعام : 61) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور فرمایا : (لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِؕ-) ترجمہ : آدمی کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے بدل بدل کر باری باری آنے والے فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ (پ13 ، الرعد : 11) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کچھ فرشتے روحیں قبض کرتے ہیں ، فرمایا : (حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ(۶۱)) ترجمہ : یہاں تک کہ جب تم میں کسی کو موت آتی ہے توہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ (پ7 ، الانعام : 61) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور فرمایا : (قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ۠(۱۱)) ترجمہ : تم فرماؤ : تمہیں موت کا فرشتہ وفات دیتا ہے جو تم پر مقرر ہے پھر تم اپنے رب کی طرف واپس کیے جاؤ گے۔ (پ21 ، السجدۃ : 11) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

فرشتے اہل ایمان کی مدد کےلئے بھی اترتے ہیں : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَاؕ-) ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر کچھ لشکر آئے تو ہم نے ان پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے۔ (پ21 ، الاحزاب : 9) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اورفرشتے کافروں پر عذابِ الٰہی بھی اتارتے ہیں ، چنانچہ فرمایا : (وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ(۷۷)) ترجمہ : اور جب لوط کے پاس ہمارے فرشتے آئے تواُن کی وجہ سے لوط غمگین ہوئے اور ان کا دل تنگ ہوا اور فرمانے لگے یہ بڑا سخت دن ہے۔ (پ12 ، ھود : 77) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

چند اہم باتیں :

(1) یہ چند آیات ذکر کی گئی ہیں ، اس طرح کی کثیر آیات اور سینکڑوں احادیث موجود ہیں ، جن میں فرشتوں کے نظامِ کائنات چلانے کا تذکرہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی علامات ہیں۔ قرآنِ مجید سے معلوم ہوا ہے کہ بندگانِ خدا کے اختیارات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور خدا کے اجازت یافتہ بندوں کےلئے اگر کائنات میں وسیع تصرفات کا عقیدہ رکھا جائے ، تو یہ بالکل درست اور قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔

(2)کائنات میں تصرُّف کا اختیار اللہ تعالیٰ نے صرف فرشتوں ہی کو نہیں دیا ، بلکہ انسانوں میں بھی مقبول بندوں کو عطا کیا ہے جیسے انبیاء  علیھمُ الصّلوٰۃ والسَّلام  کو بہت طاقت عطا فرمائی ، چنانچہ حضرت عیسیٰ  علیہ السّلام  کے تصرفات کے بارے میں قرآن مجید میں ہے : (وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْۚ-) ترجمہ : جب تو میرے حکم سے مٹی سے پرند ے جیسی صورت بناکر اس میں پھونک مارتا تھا تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی اور تو میرے حکم سے پیدائشی نابینا اور سفید داغ کے مریض کوشفا دیتا تھااور جب تو میرے حکم سے مردوں کو زندہ کر کے نکالتا۔ (پ7 ، المآئدۃ : 110) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) انبیاء  علیھمُ السَّلام  کے ان تصرُّفات کو “ مُعجزہ “ کہا جاتا ہے۔

(3)کائنات میں تصرف کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو بھی عطا فرمایا ہے ، چنانچہ قرآنِ مجید میں ہے : (قَالَ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّكُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ(۳۸) قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَۚ-وَ اِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ(۳۹) قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-) ترجمہ : سلیمان نے فرمایا : اے درباریو!تم میں کون ہے جو اُن کے میرے پاس فرمانبردار ہوکر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لے آئے۔ ایک بڑا خبیث جن بولا کہ میں وہ تخت آپ کی خدمت میں آپ کے اس مقام سے کھڑے ہونے سے پہلے حاضر کردوں گا اور میں بیشک اس پر قوت رکھنے والا ، امانتدار ہوں۔ اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھرجب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوادیکھا تو فرمایا : یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟(پ19 ، النمل : 38تا40) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دعا : اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق عقیدہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دار الافتاء اہلِ سنّت فیضان مدینہ ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code