روشن ستارے
حضرت سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہُ عنہ
* مولانا عدنان احمد عطاری مدنی
ماہنامہ نومبر 2021
ایک صحابیِ رسول رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ عالی میں ایک کَمان تحفۃً پیش کی گئی تھی ، نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ کمان غزوۂ احد کے دن مجھے عطا فرما دی ، میں نے نبیِّ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آگے کھڑے ہوکر اس قدر تیر اندازی کی کہ اس کا سِرا ٹوٹ گیا لیکن میں نبیِّ محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آگے سے نہیں ہٹا اور وہیں کھڑا رہاکہ کوئی تیر لگے تو مجھے لگے جب بھی کوئی تیر نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جانب بڑھتا تو میں اپنا سَر آگے کردیتا تاکہ نبیِّ سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرے کو بچالوں اور اس وقت میں تیر اندازی نہیں کررہا تھا آخر کار ایک تیر میری آنکھ میں لگا جس کی وجہ سے میری آنکھ کی پتلی نکل کر میرے رخسار پر آگئی ، میں اسے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر تیزی سے نبیِّ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جانب بڑھا ، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میری آنکھ کو میری ہتھیلی پر دیکھا تو چشمانِ اقدس سے آنسو نکل آئے[1] پھر ارشاد فرمایا : اگر تم چاہو تو صبر کرو اور تمہارے لئے جنّت ہے اگر تم چاہو تو میں تمہارے لئے آنکھ کو اس کی جگہ پر رکھ دوں اور اللہ پاک سے دعا کردوں کہ آنکھ کی روشنی کچھ کم نہ ہو ، میں نے عرض کی : یانبیَّ اللہ ! بے شک جنّت بہت بڑا اجر ہے اور عطا ہے لیکن مجھے اپنی زوجہ سے محبت ہے اور یہ ڈر ہے کہ اگر اس نے مجھےاس حالت میں دیکھا تووہ مجھے ناپسند کرے گی ، اس لئے مجھے یہ پسند ہے کہ آپ آنکھ کو درست فرمادیجئے اور اللہ سے میرے لئے جنّت بھی مانگ لیجئے۔ حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میں دعا کردوں گا۔ پھر نبیِّ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آنکھ کو اس کی جگہ پر رکھ دیا اور اپنے پیارے صحابی کیلئے جنّت کی دعا کردی۔ ایک روایت میں ہے کہ یوں دعا کی : اے اللہ! بےشک اس نے اپنے چہرے کے ذریعے تیرے نبی کو سُرْ خْرُو رکھا ، تو اس آنکھ کو دونوں آنکھوں میں زیادہ حسین بنادے اور اس کی نظر تیز کردے۔ اس دعا کی برکت ان صحابی کو یہ ملی کہ ان کی وہ آنکھ دوسری آنکھ کے مقابلے میں زیادہ حسین ہوگئی ، اور دوسری کے مقابلے میں اس آنکھ کی نظر بھی زیادہ تیز ہوگئی اور اگر دوسری آنکھ میں آشوبِ چشم کی شکایت ہوتی تو یہ والی آنکھ آشوبِ چشم سے محفوظ رہتی تھی۔ [2] بعض روایتوں میں ہے کہ بڑھاپے میں ان کی زخمی ہونے والی آنکھ دوسری آنکھ کے مقابلے میں زیادہ اچھی ، قوی اور توانا تھی۔ [3]
پیارے اسلامی بھائیو! میدانِ جنگ میں جان ہتھیلی پر رکھ کر نبیِّ آخرُ الزّماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے ڈھال بَن کر کھڑے ہونے والے ، جانباز عظیم مجاہد انصاری صحابی حضرت سیدنا ابو عُمر قتادہ بن نعمان ظَفَری بدری رضی اللہُ عنہ تھے۔ [4]
فضائل وکمالات :
علمی میدان میں آپ رضی اللہُ عنہ عالم فاضل انصار صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ [5] جبکہ جنگی میدان میں آپ کا شمار تیر انداز صحابہ میں ہوتا ہے ، آپ ان 70 صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم میں شامل ہیں جنہوں نے ہجرتِ نبویہ سے قبل مِنیٰ کی گھاٹی میں معزّز نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دستِ اقدس پر بیعت کی تھی ، [6] آپ نے نبیِّ محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہم رکابی میں تمام غزوات میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل کیا ، فتحِ مکّہ کے دن قبیلۂ بنی ظفر کا جھنڈا آپ نے تھام رکھا تھا[7] مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے 12 ہجری میں حج کی ادائیگی کی تو مدینے میں اپنا نائب آپ کو بنایا ، [8] بیت المقدس کی فتح کے موقع پر جب امیرُ المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ ملکِ شام کی جانب روانہ ہوئے تو آپ رضی اللہُ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے آگے آگے روانہ ہوئے۔ [9]
پوری رات تلاوت :
ایک رات آپ رضی اللہُ عنہ نے پوری رات سورۂ اخلاص پڑھتے ہوئے گزار دی ، پھراس بات کا ذکر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! بے شک یہ سورت تہائی یا نصف قراٰن کے برابر ہے۔ [10]
شیطان کو باہر نکال دیا :
حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : ایک رات بہت اندھیرا چھایا ہوا تھا اور شدید بارش ہورہی تھی ، میں نے سوچا کہ اس رات کو غنیمت جان کر عشا کی نماز نبیِّ بَرحَق صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ادا کروں ، نماز سے فارغ ہونے کے بعد نبیِّ ہادی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نگاہِ کرم مجھ پر پڑی تو استفسار فرمایا : اے قتادہ! كيا تمہارے لئے آسمان پر گھٹا نہیں چھائی ہوئی؟ میں نے عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں آپ کا قُرب پانا چاہتا تھا ، پھر مجھے نبیِّ صادق صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےکھجور کی شاخ عطا کی اور فرمایا : یہ شاخ لے لو ، تم اس کے ذریعے محفوظ رہو گے ، جب تم باہر نکلو گے تو یہ تمہارے لئے دس (ہاتھ) آگےکی طرف روشن ہوجائے گی اور دس (ہاتھ) پیچھے کی جانب روشن ہوجائے گی ، شیطان تمہارے پیچھے تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہے جب تم گھر پہنچ جاؤ تو گھر کے پیچھے کی جانب سے داخل ہونا اور اس کو اس شاخ سے مارنا ، آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : میں باہر نکلا تو شاخ شمع کی مثل روشن ہوگئی ، میں اس کی روشنی میں چلتا ہوا اپنے گھر پہنچا تو گھر والے سو رہے تھے میں نے کونے میں نظر کی تو وہاں شیطان چوہے کی صورت میں تھا میں اس کو اسی شاخ سے مسلسل مارتا رہا یہاں تک کہ وہ گھر سے نکل گیا۔ [11]
اپنے باغ کی کھجوروں کی اجازت :
حضرت قتادہ رضی اللہُ عنہ کا کھجوروں کا ایک باغ تھاجس کی ایک چابی آپ کے پاس رہتی تھی جب کھجوریں سُرخ ہوگئیں تو آپ رضی اللہُ عنہ نے اس باغ کی ایک اور چابی بنوائی اور اپنے مہاجر بھائی رضی اللہُ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : میرے پاس باغ کی ایک چابی ہے اور باغ کی یہ ایک چابی تمہارے لئے ہےجب آپ باہر آئے تو آپ کی چھوٹی بیٹی آپ کے پیچھے پیچھے چلی آئی ، جب آپ نے دروازہ کھولا تو وہ بچّی اندر داخل ہوگئی اور کھجوریں جمع کرنے لگی ، آپ کی نظرجونہی بچّی پر پڑی تو اسے کھجوریں لینے سے بالکل منع کردیا گویا کہ اس نے ایک کھجور بھی نہیں لی ، لیکن آپ اپنے مہاجر بھائی کے پاس آئے اور کہنے لگے : میری بچّی اس باغ میں کبھی داخل ہوجاتی ہے اور کھجوریں لے لیتی ہے ، کیا تم ہمیں اس کی اجازت دیتے ہو؟ مہاجر صحابی رضی اللہُ عنہ نے (خوش دلی سے) جواب دیا : اجازت ہے۔ [12]
وفات :
سن 23 یا 24 ہجری میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہُ عنہ نے اس جہانِ فانی سے کوچ کیا تو آپ کی عمر 65 برس تھی ، حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی جبکہ (آپ کو قبر میں اتارنے کے لئے) آپ کے ما ں جائے بھائی حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ آپ کی قبر میں اترے تھے۔ [13]
مرویات کی تعداد :
آپ رضی اللہُ عنہ سے 7 احادیث روایت کی گئی ہیں ان میں ایک حدیث کوامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔ [14]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
[1] معجم کبیر ، 19 / 8
[2] زرقانی علی المواہب ، 7 / 69 ، شرح الشفاء لعلی القاری ، 1 / 654 ، معجم کبیر ، 19 / 8ملتقطاً
[3] دلائل النبوۃ ، للبیہقی ، 3 / 253
[4] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 10
[5] الوافی بالوفیات ، 24 / 142
[6] مستدرک للحاکم ، 4 / 345
[7] مستدرک للحاکم ، 4 / 345
[8] تاریخ ابن الخیاط ، ص65
[9] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 11
[10] مسند احمد ، 4 / 32 ، حدیث : 11115
[11] معجم کبیر ، 19 / 5 ، تاریخ ابن عساکر ، 49 / 284
[12] مختصر تاریخ دمشق ، 21 / 73
[13] الوافی بالوفیات ، 24 / 142
[14] تہذیب الاسماء واللغات ، 2 / 369
Comments