بیک ٹائٹل
سمجھانے کے بعض مؤثِّر طریقے
از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ
ماہنامہ مئی 2021ء
حضرتِ بی بی اُمِّ دَرداء رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں : “ جس نے اپنے بھائی کو چُپکے سے سمجھایا تو اس نے اسے زینت بخشی اور جس نے اسے علانیہ اور لوگوں کے سامنے سمجھایا تو اس نے اپنے بھائی کو عیب لگایا۔ “ (شعب الایمان ، 6 / 112 ، حدیث : 7641)
اے عاشقانِ رسول! سمجھانا بھی ایک فن ہے ، اللہ کرے یہ ہم کو آجائے ، اگر شرعی اعتبار سے کسی کو سمجھانا آپ پر ضروری ہو اور آپ اس کے اہل بھی ہوں تو بڑوں کو احترام سے اور چھوٹوں کو شفقت کے ساتھ سمجھائیے۔ جارحانہ انداز میں یا ڈانٹ کر اگر سمجھائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ سامنے والا چُپ ہوجائے لیکن دلی طور پر اپنی اصلاح کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ بارہا لوگوں کا سمجھانے کا انداز رَف اور جارِحانہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے سامنے والا سمجھ نہیں پاتا اور بعض اوقات وہ بِدَک جاتا ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا پر جس جارحیت کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کو سمجھا رہے ہوتے ہیں ، اس سے سامنے والے کے اندر ضِد ہی پیدا ہوتی ہوگی ، بھلے وہ غلطی پر ہو اور اس کا ضمیر بھی تسلیم کررہا ہو کہ میں غلطی پر ہوں مگر وہ ایسے مُصلِح (یعنی اصلاح کرنے والے) کی بات کبھی قبول نہیں کرے گا اور سوچے گا کہ اگر اپنی غلطی قبول کروں گا تو ہوسکتا ہے سامنے والا مجھ پر مزید چڑھائی کردے ، اس لئے وہ اپنے دُرست ہونے کے متعلق اُلٹے سیدھے دلائل قائم کرے گا۔
یاد رکھئے! ہم میں سے کوئی بھی “ شیطان پروف “ نہیں ہے ، اس لئے سمجھانے کا انداز ایسا ہو کہ جس سے سامنے والے میں ضِد پیدا نہ ہو اور شیطان اس کی اصلاح کو اس کی نظر میں بے عزتی بنا کر نہ پیش کرسکے ، مثلاً اگر اس میں کوئی اچھی بات ہے یا اس کی گفتگو میں کوئی اچھی چیز ہے تو پہلے اس حوالے سے جائز انداز میں اس کی کچھ تعریف کرلی جائے ، پھر اس کی بھول کی طرف اشارہ کردیا جائے ، پھر کہہ دیا جائے کہ اگر میری غلط فہمی ہے تو ہاتھ جوڑ کر مُعافی مانگتا ہوں ، اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے ، واٹس ایپ کے ذریعے ہاتھ جڑا ہوا (یعنی معافی مانگنے والا) اسٹیکر بھی بھیج دیا جائے ، الغرض ایسا انداز ہرگز نہ اختیار کیا جائے کہ جس سے اگلے میں ضِد پیدا ہو اور اُسے غصہ آئے۔ سمجھانے کے لئے حکیمانہ ، پیار ، محبت اور نرمی والا انداز ہو تو جسے سمجھایا گیا وہ سُدھرنے کی سوچتا ہے اور اسے اپنی اصلاح کا کوئی نہ کوئی پہلو مل بھی جاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں جس کی اصلاح کرنی ہوتی ہے اس کا نمبر ان کے پاس نہیں ہوتا تو پھر وہ ویڈیو یا آڈیو بنا کر یا پھر پوسٹ تیار کرکے سوشل میڈیا پر اس پیغام کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمارے پاس فُلاں کا نمبر نہیں ہے لہٰذا اس کے ساتھ جس کا رابطہ ہو وہ ہمارا یہ پیغام اسے پہنچا دے ، ایسا نہیں کرنا چاہئے ، سامنے والے کو لاکھوں میں رُسوا اور بے عزت کرکے آپ بول رہے ہیں کہ اس کو بول دو ایسا نہ کرے ، اس نے اگر اپنی اصلاح کر بھی لی تو لاکھوں کو کون بتانے جائے گا کہ اس کی اصلاح ہوگئی ہے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ جناب کی غلط فہمی ہو ، سامنے والے کے پاس آپ کی بات کا جواب بھی ہوسکتا ہے ، پھر آپ پر واجب بھی تو نہیں ہے کہ لاکھوں کو اس کا پیغام پہنچا کر آپ کہیں کہ سدھرجا! اس طرح کے انداز سے سامنے والے کی رسوائی ہوتی ہے ، اس کے دل میں بغض پیدا ہوسکتا ہے ، اگر اس نے اپنی غلطی کی اصلاح کر بھی لی تب بھی شاید وہ آپ سے بدظن ہی ہو۔ اپنے سے بڑا اگر کوئی ناجائز کام یا کلام کررہا ہے اور آپ کو پتا ہے کہ یہ بات فُلاں کتاب میں اس اس طرح لکھی ہوئی ہے اور آپ کو ظنِّ غالب ہے کہ میں سمجھاؤں گا تو یہ مان جائے گا تو اب سمجھانا واجب ہے ، اور انداز اس طرح بھی رکھا جاسکتا ہے کہ وہ کتاب کھول کر اس کو دکھا دی جائے اور پیار محبت کے ساتھ یہ کہا جائے کہ ذرا مجھے سمجھائیے کہ یہ کیا لکھا ہے؟ اگر وہ سمجھدار ہوگا تو خود ہی سمجھ جائے گا۔ بہرحال غلطی چھوٹا بھی بتائے اور ہو غلطی ، تو بڑوں کو بھی بڑا دل رکھ کر مان لینا چاہئے کہ اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(نوٹ : یہ مضمون 27فروری2021ء کو ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے مزید مشورے لے کر پیش کیا جارہا ہے۔ )
Comments