تفسیرِ قراٰنِ کریم
عزم و حوصلے والے پیغمبر صلواتُ اللہ تعالیٰ علیھم اَجمعین
* مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ جون 2021
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ) ترجمۂ کنز العرفان : تو (اے حبیب!) تم صبر کرو جیسے ہِمَّت والے رسولوں نے صبر کیا۔ (پ 26 ، الاحقاف : 35) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
آیت میں فرمایا گیا کہ اے رسول! صبر کرو جیسے ہِمَّت والے رسولوں نے صبر کیا۔ آیت کا سیاق یہ ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مسلسل دعوتِ دین دینے کے باوجود کفار کی اکثریت کا رویہ “ انکار “ ہی رہا۔ کفر و استکبار پر ایسے اِصرار کا نتیجہ یہی بنتا تھا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُن کے خلاف ہلاکت کی دعا کردیں اور قوم ہلاک ہوجائے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رَحمت سے لوگوں کو مُہلت عطا فرمائی اور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حکم دیا کہ آپ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی ایذا پر ایسے ہی صبر کریں جیسے پہلے باہمت رسولوں علیہم الصلوٰۃ والسّلام نے صبر کیا کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ صرف “ اُولُوا الْعَزْم “ رسولوں کے گروہ میں شامل ہیں ، بلکہ اُن کے سردار ، اُن میں سب سے اعلیٰ اور اُن کے اَخلاقِ حَسَنہ کے جامِع ہیں نیز حضورپُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شانِ رَحمت کا تقاضا بھی یہی تھا۔
“ اُولُوا الْعَزْم “ رسول کون ہیں؟ یوں تو تمام انبیاء و مُرسَلین علیہم الصلوٰۃ والسّلام ہِمَّت والے ہیں اور سب نے ہی راہِ حق میں آنے والی تکالیف پر صَبْر و ہِمَّت کا مظاہرہ کیا ، جیسا کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسّلام کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے کہ راہِ حق میں انہوں نے اپنی جانیں قربان کردیں ، یونہی جن ہستیوں کے تفصیلی واقعات قرآن مجید میں مذکور ہیں ، جیسے حضرت شُعَیْب ، ھُود ، صالِح ، لُوط ، یُوسُف علیہم الصلوٰۃ والسّلام وغیرہا ، اِن کے حالات ِ زندگی میں عزم و ہِمَّت ، ثَبات و اِستقامت اور صَبْر و حوصلہ کے عظیم واقعات موجود ہیں ، لیکن انبیاء و رُسُل علیہم الصلوٰۃ والسّلام کی مبارک ، نورانی جماعت میں سے پانچ رسول ایسے ہیں ، جن کا راہِ حق میں صبر اور مُجاہدہ دیگر انبیاء و مُرسَلین علیہم الصلوٰۃ والسّلام سے زیادہ ہے ، اِس لئے اُنہیں بطورِ خاص “ اُولُوا الْعَزْم “ رسول کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں : (1)ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (2)حضرت ابراہیم (3)حضرت موسیٰ (4)حضرت عیسیٰ (5)حضرت نوح علیہم الصلوٰۃ و السّلام ۔
قرآنِ مجید میں اِن ہستیوں کاخاص طور پر ذکر کیا گیا ہے ، جیسا کہ سورۃُ الاَحزاب میں ہے : ( وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ(۷)) ترجمۂ کنزالعرفان : اور اے محبوب! یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے اُن کا عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے اور ہم نے ان سے بڑا مضبوط عہد لیا۔ (پ21 ، الاحزاب : 7) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور سورۃُ الشُّوریٰ میں انہی پانچ ہستیوں کا تذکرہ یوں فرمایا : ( شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى) ترجمہ : اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو تاکید فرمائی اور جس کی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی اور جس کی ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو تاکید فرمائی۔ (25 ، الشوریٰ : 13) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : یہ پانچوں ہی اُولُوا الْعَزْم رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر مذکورہ (بالا) دونوں آیتوں میں اکٹھا کر دیا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح ، 9 / 376 ، تحت الحدیث : 5472)
صدرُالشّریعہ حضرت مولانا امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : نبیوں کے مختلف درجے ہیں ، بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ سیِّدُالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم کا ہے ، پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام ، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور حضرت نوح علیہ السّلام کا ، اِن حضرات کو “ مُرْسَلِیْنِ اُولُو الْعَزْم “ کہتے ہیں اور یہ پانچوں حضرات ، باقی تمام انبیا و مُرسَلین ، اِنس و مَلک و جن و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں۔ (بہار شریعت ، 1 / 54)
مذکورہ بالا پانچوں ہستیوں کی بلند ہِمَّتی ، عالی حوصلگی اور قوتِ عزم و عزیمت اُن کی سیرتوں کے مطالعہ سے روشن ہے۔ اُن کے عزم و حوصلہ کی ایک بڑی نشانی یہ تھی کہ وہ رَحمتِ خداوندی سے کبھی مایوس نہ ہوئے ، کسی طرح کی بھی تکلیف کی وجہ سے ان کے حوصلے پست نہ ہوئے ، بلکہ کفار کے ظلم و عداوت اور ضد و مخالفت میں جتنا اضافہ ہوتا ، اِن حضرات کے عزم میں اُتنی ہی مضبوطی آجاتی۔
فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
حضرت نوح علیہ السّلام نے اپنی قوم میں ساڑھے نو سوسال قیام کیا اور سینکڑوں سال انہیں دعوتِ توحید اور پیغامِ حق دیا ، لیکن نہایت قلیل تعداد نے اسلام قبول کیا۔ اپنی کاوِشوں کا ظاہری نتیجہ بہت امید افزا نہ ہونے کے باوجود آپ علیہ السّلام نے دعوتِ حق کا فریضہ ترک نہ کیا اور کفار کے تمسخر اُڑانے ، استہزاء کرنے ، جسمانی ، روحانی اور ذہنی اذیتیں دینے کے باوجود خدا کی طرف بلانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی حیاتِ مبارکہ میں قدم قدم پر عزم و استقامت کے نمونے موجود ہیں : آپ کی پرورش کرنے والے “ چچا آزَر “ نے آپ کو جان کی دھمکیاں دیں اور دن رات اذیت پہنچائی ، آپ علیہ السّلام نے اپنی قوم کی بتوں سے شدید محبت جاننے کے باوجود غیرتِ توحید میں تنِ تنہا اُن کے بت توڑ دئیے ، جس کے بعد آپ علیہ السّلام کو نہایت تیز بھڑکتی آگ میں ڈالاگیا ، یونہی نمرود جیسے ظالم و جابر بادشاہ کے دربار میں پورے حوصلے سے کھڑے ہوکر نِڈر اور بے خوف انداز میں اُس سے خداوندِ قدوس کی قدرت و عظمت پر مناظرہ کیا ، پھر راہِ خدا میں ہجرت کی ، اس کے بعد اپنی بیوی اور بیٹے کو حکمِ خدا پر مکہ کے بیابان میں تنہا چھوڑ دیا ، پھر اللہ کے حکم پر نوجوان ، اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری چلا دی ، الغرض حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی عزم و ہِمَّت دنیا کی عظیم یادگاروں میں سے ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا پُرعزم اور عالی ہِمَّت ہونا آپ کی سیرت سے عیاں ہے۔ آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فرعون نے بنی اسرائیل کے بچے قتل کروانا شروع کردئیے ، پیدائش کے بعد موسیٰ علیہ السّلام کو ایک صندوق میں ڈال کر دریا میں بہا دیا گیا ، فرعون کے گھر میں ایک طویل عرصہ پرورش پانے کے باوجود آپ کے اخلاق و عادات اور سیرت و کردار میں کوئی کَجی (ٹیڑھی بات) پیدا نہ ہوئی ، بلکہ آپ کا کردار نہایت عظیم اور پاکیزہ ہی رہا ، برسوں تک ایک وعدے کی وجہ سے آپ علیہ السّلام نے حضرت شعیب علیہ السّلام کی بکریاں چَرائیں ، نبوت کا منصب ملنے کے بعد فرعون کے دربار میں جاکر زور دار انداز میں اعلانِ حق کیا ، فرعون کی ربوبیت کو رَد کرکے خدا کی ربوبیت و وحدانیت کا پیغام دیا حالانکہ فرعون کا ظلم و ستم اور قہر و جبر سب کو معلوم تھا ، عرصہ دراز تک فرعون کا مقابلہ کیا پھر اس سے نجات پانے کے بعد اپنی عجیب نفسیات والی قوم کے ساتھ نباہ کیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی سیرت مبارکہ میں عزم و ہِمَّت کی خوبصورت سچی داستان ہے۔ مُعجِزات کی کثرت ، لوگوں کی بے پناہ خیرخواہی اور فریاد رَسی کے باوجود آپ کو پوری زندگی ستایا گیا ، یہودیوں نے ہر جگہ کھل کر آپ علیہ السّلام کی مخالفت کی ، آپ علیہ السّلام کے احسانات کے باوجود انہوں نے احسان فراموشی کرتے ہوئے اپنی طرف سے آپ علیہ السّلام کو سولی پر چڑھا کر قتل کی کوشش کی ، اگرچہ اللہ عزوجل نے اپنی رَحمت سے آپ علیہ السّلام کو بچا کر زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا اور حقیقت میں آپ کی جگہ ایک دوسرے مشابہ آدمی کو پھانسی چڑھایا گیا۔
جیسے میرے سرکار ہیں ویسا نہیں کوئی! یہ وہ مختصر سا منظر نامہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا چاروں ہستیوں کو کس وجہ سے “ اُولُوا الْعَزْم “ کا لقب عطا فرمایا گیا۔ اِن انبیاء علیہم السّلام کی طرح صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنے کا حکم ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی دیا گیا اور سیدِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چونکہ جامعِ کمالاتِ انبیاء اور منبعِ جملہ اوصافِ عالیہ ہیں ، اس لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سب سے بڑھ کر ہِمَّت و حوصلہ دِکھایا ، چنانچہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود فرمایا : “ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جتنا مجھے ڈرایا گیا ہے ، اتنا کسی اور کو خوفزدہ نہیں کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جتنا مجھےستایا گیا ہے ، اتنا کسی اور کو نہیں ستایا گیا۔ (ترمذی ، 4 / 213 ، حدیث : 2480)
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیات مبارکہ کے اوراق پر ایک سَرْسَری نظر بھی ڈالیں تو حدیث میں بیان کردہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ مکی زندگی کے تکلیف دہ واقعات کا تسلسل ، کفار کی ایذا رسانیاں ، جادو ، جنون اور کہانت کے طعنے ، شعبِ ابی طالب میں تین سال کی محصوری ، طائف میں سرداروں اور اَوباشوں کی دی گئی تکالیف ، ماننے والوں کو ستایا جانا ، اہلِ ایمان کا مکۂ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور ہوجانا ، خود نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ہجرت کرنا ، مدینۂ منورہ جانے کے بعد کفار کی طرف سے مسلسل جنگیں اور منافقین کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ، الغرض نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیبہ عزم و حوصلہ کی عظیم ترین نشانی ہے۔ حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں : حضور ِاقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا : “ اے عائشہ! رضی اللہُ عنہا ، دنیا (کی زیب و زینت اور عیش) محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کی آل کے لئے مناسب نہیں ، اے عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ اُولُوا الْعَزْم رسولوں سے یہ پسند فرماتا ہے کہ وہ دنیا کی تکلیفوں پر اور دنیا کی پسندیدہ چیزوں سے صبر کریں ، پھر مجھے بھی انہی چیزوں کا مکلَّف بنانا پسند کیا ، جن کا اُنہیں مکلَّف بنایا ، تو ارشاد فرمایا : ( فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ) ترجمۂ کنزالعرفان : تو (اے حبیب!) تم صبر کرو جیسے ہِمَّت والے رسولوں نے صبر کیا۔ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے لئے ا س کی فرمانبرداری ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے لئے اس کی فرمانبرداری ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی قسم! میں ضرور صبر کروں گا جس طرح اُولُوا الْعَزْم رسولوں نے صبر کیا اور قوت تو اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے۔ (اخلاق النبی لابی شیخ اصبھانی ، ص154 ، حدیث : 806)
حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں : خدا کی قسم! رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے (کسی سے) انتقام نہیں لیا ، ہاں جب اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کے لئے انتقام لیتے تھے یعنی سزا دیتے تھے۔ (بخاری ، 4 / 331 ، حدیث : 6786)
اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور دیگر اُولُوا الْعَزْم پیغمبروں کے صدقے ہمیں حق پر اِستقامت ، نیکی کی دعوت کا جذبہ اور عزم و حوصلہ کی دولت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہل سنت ، فیضان مدینہ
Comments