حضرت سیدنا دِحیہ کَلبی رضی اللہ عنہ
* مولانا عدنان احمد عطاری مدنی
ماہنامہ جون 2021
سِن7ہجری ماہِ محرم ُ الحرام میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف بادشاہوں اور سرداروں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لئے خُطوط (Letters) لکھوائے اور ایک ہی دن میں چھ قاصدین کو روانہ فرمایا۔ [1] ان میں سے ایک معزّز قاصد مکتوبِ مبارک لے کر روم کے بادشاہ ہِرَقْل کے پاس پہنچے تو اس نے کہا : میں جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب نبی و رسول ہیں اور یہ وہی ہیں جن کا ہم انتظار کررہے تھے اور جن کا تذکرہ ہم نے اپنی کتابوں میں پایا ہے لیکن اہلِ روم کی طرف سے مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے اگر یہ خوف نہ ہوتا تو میں ضرور نبیِّ آخرُ الزّمان کی پیروی کرتا۔ تم ضَغاطِر نامی راہب کے پاس جاؤ اور اسے یہ باتیں بتاؤ ، اس کی عزت ملکِ روم میں مجھ سے بھی زیادہ ہے اور اہلِ روم کے نزدیک مجھ سے زیادہ اس کی بات قابلِ قبول ہوتی ہے ، تم دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے۔ محترم قاصد نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیغام کو راہب تک پہنچایا تو اس نے کہا : اللہ کی قسم! تمہارے صاحب نبی ہیں ، اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ، ہم ان کے اوصاف کی وجہ سے ان کو پہچانتے ہیں ، ہم نے ان کا نام اپنی کتاب میں دیکھا ہے۔ یہ کہہ کر اس راہب نے اپنا سیاہ لباس اتار کر سفید پوشاک زیبِ تَن کی پھر عبادت خانے میں جاکر اہلِ روم سے کہا : ہمار ےپاس احمد (رسولُ اللہ) کا مکتوب آچکا ہے جس میں انہوں نے ہمیں دینِ الٰہی کی جانب بلایا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورگواہی دیتا ہوں کہ احمد اللہ کے رسول ہیں ، اتنا سننا تھا کہ قوم نے اس راہب پر یکبارگی حملہ کردیا اور مار مار کر اس راہب کو شہید کردیا ، رسولِ پاک کے قاصد دوبارہ شاہِ روم کے پاس پہنچے اور اسے راہب کا معاملہ بتایا ، شاہِ روم کہنے لگا : میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے ورنہ اس راہب کا مقام ومرتبہ تو اس قوم کے نزدیک مجھ سے بھی بڑھ کر تھا۔ [2]پیارے اسلامی بھائیو! رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے منتخب کردہ یہ معزز ، محترم قاصد حضرت سیّدُنا دِحْیَہ کلبی رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کا پورا نام دِحیہ بن خلیفہ ہے “ دِحیہ “ کا معنی “ لشکر کا سالار “ ہے۔ [3] آپ کا تعلق قبیلہ بنو کلب سے ہے۔ [4]
اسلام : آپ غزوۂ بدر سے پہلے اسلام لائے مگر غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ [5]
اعزاز : آپ رضی اللہ عنہ کا شمار اکابرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔ [6] بلاشک و شبہ آپ مدینے میں موجود صحابۂ کرام میں سب سے زیادہ حُسن و جمال والے تھے اسی وجہ سے حضرت جبرائیل علیہ السّلام بعض اوقات آپ کی صورت اختیار کرکے بارگاہِ رسالت میں آتے رہے۔ [7]
معمولاتِ زندگی : آپ ایک تاجر تھے اور جب بھی تجارتی قافلہ لے کر مدینے پہنچتے تو لوگ سامانِ تجارت دیکھنے کے لئے آجاتے اور آپ سے سامان خرید لیا کرتے۔ [8]
اہلِ خانہ کو کپڑا بھجوایا : ایک مرتبہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں کچھ کپڑے لائے گئے ، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان میں سے ایک کپڑا آپ کو عطا کیا اور فرمایا : اس کپڑے کو دو ٹکڑے کرلو ایک سے اپنے لئے قمیص بنالو اور دوسرا اپنی بیوی کو دے دینا کہ وہ اس کو اپنی اوڑھنی بنالے ، جب آپ جانے لگے تو فرمایا : اپنی بی بی سے کہنا کہ اس کے نیچے کوئی دوسرا کپڑا لگالے تاکہ بدن نہ جھلکے۔ [9]
تحائف : حضرت دِحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی طرف سے دربارِ رسالت میں تحفے تحائف پیش کرنے کا سلسلہ رہتا تھا چنانچہ ایک بار آپ نےملکِ شام سے واپس آکر بارگاہِ رسالت میں تحفۃً پستے ، بادام اور خشک روٹی پیش کی ، [10] ایک مرتبہ ایک اُونی جُبّہ اور چمڑے کے دو موزے پیش کئے ، حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان دونوں موزوں کو اتنا استعمال فرمایا کہ دونوں میں سوراخ ہوگئے۔ [11] ایک مرتبہ آپ نے بارگاہِ نبوی میں ملکِ شام کے انجیر اور مُنقّوں کا نذرانہ پیش کیا۔ [12]
مجاہدانہ کارنامے : آپ نے غزوۂ اُحد اور بعد کے تمام غزوات میں شرکت کی۔ [13] سِن 6 ہجری جُمادَی الاُخریٰ میں آپ شاہِ روم کے پاس سے آرہے تھے اس وقت آپ کے پاس شاہِ روم کی جانب سے ملنے والے تحائف بھی تھے جب آپ ایک وادی میں پہنچے توایک قبیلے والوں نے حملہ کرکے آپ کو لوٹ لیا مگر اسی قبیلے میں موجود مسلمانوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے مزاحمت کرکے سارا سامان برآمد کرکے آپ کے حوالے کردیا۔ آپ وہاں سے نکلے اور آستانۂ نبوت پر حاضر ہوکر دروازہ کھٹکھٹایا ، اندر سے ارشاد ہوا : کون ہے؟ عرض کی : دِحیہ کلبی ، حکم ہوا : اندر آجاؤ ، آپ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا ، حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان لٹیروں کی سرکوبی کے لئے حضرت سیّدُنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں پانچ سو سپاہیوں کا ایک لشکر روانہ فرمادیا ، حضرت زید بن حارثہ نے اس میدان میں بھی فتح کا جھنڈا گاڑا ، اس معرکہ میں حضرت دِحیہ کلبی بھی ساتھ تھے۔ [14] آپ معرکۂ یَرموک میں شہ سواروں کے ایک گروہ پر سالار کی حیثیت سے شریک تھے۔ [15]
رہائش و وفات : شام کے شہر دمشق کے ایک گاؤں میں آپ کا قیام رہا۔ [16] ایک مرتبہ رمضان میں آپ اپنی بستی سے سفر کرکے دوسری بستی تشریف لے گئے مسافر ہونے کی وجہ سے آپ اور آپ کے بعض رُفقاء نے روزہ نہیں رکھا ، سفر میں ساتھ (روزہ رکھنے والے) کچھ لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری ، جب آپ اپنی بستی میں واپس تشریف لائے تو جن لوگوں نے روزہ رکھا تھا ان کے بارے میں ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم! آج جو میں نے دیکھا کہ اسے دیکھنے کا گمان بھی نہیں کرتا تھا کہ لوگ سیرتِ رسول اور اصحابِ رسول کے طریقۂ کار سے اتنے بے رغبت ہوگئے ہیں ، اس وقت آپ نے دُعا کی : اے اللہ! میری روح قبض فرمالے۔ [17] آپ کا وِصال حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں ہوا۔ آپ کی قبرِ مبارک مِزّۃ گاؤں کے ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ [18]
مَرْوِیّات کی تعداد : آپ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد تقریباً 6 کو پہنچی ہے ، [19] تابعینِ عظام کے ایک گروہ نے آپ سے احادیثِ کریمہ روایت کی ہیں۔ [20]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینئیر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدنی ، کراچی
[1] سبل الھدیٰ والرشاد ، 11 / 344
[2] اسد الغابہ ، 3 / 56ملخصاً
[3] فیض القدیر ، 1 / 657 ، تحت الحدیث : 1041
[4] اجمال ترجمہ اکمال ، ص24
[5] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 157
[6] الاستیعاب ، 2 / 45
[7] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 159 ، تاریخ ابن عساکر ، 17 / 201
[8] شعب الایمان ، 5 / 235
[9] ابو داؤد ، 4 / 88 ، حدیث : 4116
[10] تاریخ ابن عساکر ، 17 / 207
[11] معجم کبیر ، 4 / 226 ، رقم : 4200
[12] انساب الاشراف ، 4 / 23
[13] الاستیعاب ، 2 / 45
[14] مغازی للواقدی ، 2 / 555 ، سیرت حلبیہ ، 3 / 251 ، سیرت ابن کثیر ، 4 / 433 ملتقطاً
[15] تاریخ ابن عساکر ، 17 / 201
[16] اتحاف السادۃ المتقین ، 8 / 540
[17] مسند امام احمد ، 10 / 351 ، حدیث : 27300 ملخصاً
[18] المصباح المضئ ، 1 / 213 ، معجم البلدان ، 5 / 122
[19] الاصابہ فی تمییز الصحابہ ، 2 / 322
[20] مرقاۃ المفاتیح ، 7 / 467 ، تحت الحدیث : 3926
Comments