شانِ حبیب بزبانِ حبیب (قسط:06)

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

 شانِ حبیب بزبانِ حبیب(قسط : 06)

* مولانا ابوالحسن عطاری مدنی

ماہنامہ جون 2021

گزشتہ سے پیوستہ

گزشتہ شمارے میں بتایا گیا تھا کہ حضور نبی رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک رحمت کے بیان کی بنیادی طور پر دو قسمیں کی جاسکتی ہیں : (1)رحمت و شفقت کی تعلیم (2)ذاتِ گرامی سے رحمت و شفقت کا ظہور۔ ان میں سے پہلی قسم کا بیان پچھلے ماہ ہوچکا ، دوسری قسم کا مختصر ذکر ملاحظہ کیجئے :

(2)ذاتِ گرامی سے رحمت و شفقت کا ظہور :

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  صرف اپنی امت ہی نہیں بلکہ سارے جہانوں کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے ، کس کس کو کیسے کیسے رحمتِ سرورِ کونین سے حصہ ملا اس کا ایک مختصر سا خاکہ ملاحظہ کیجئے :

اُمّت کے لئے رحمت : یہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک حیات کا ایسا پہلو اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رحمت کا ایسا گوشہ ہے کہ جس کا مکمل بیان بیان سے باہر ہے ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  امت کے لئے اس قدر رحیم و شفیق ہیں کہ ربّ العالمین نے امت سے یوں ارشاد فرمایا : (لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)) ترجَمۂ کنزُالایمان : بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ [1]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ کریم نے آپ کے چار اوصافِ مبارکہ کا ذکر فرمایا جو کہ سب کے سب آپ کی اپنی امت پر رحمت کا بیان کرتے ہیں۔ “ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ “ تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر گراں ہے ، “ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ “ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ہیں ، “ رَءُوْفٌ “ کمال مہربان ہیں اور “ رَّحِیْمٌ “ رحم والے ہیں۔

کیسے رحیم و کریم آقا ہیں کہ دنیا میں تشریف لاتے وقت بھی امت کی فکر تھی تو پردہ فرماتے وقت بھی لَبہائے اقدس پر بخششِ امت ہی کے الفاظ تھے ، ان کی راتیں سجدۂ بارگاہِ الٰہ میں گزر جاتیں اور امت پر غُفرانِ الٰہی کا سوال کرتے رہتے ، وہ جو خود لوگوں کو جنّت بانٹتے تھے اور یقیناً جنّت اور بارگاہِ الٰہی میں اپنا مقام و مرتبہ خوب جانتے تھے پھر بھی دوزخ کے دہکائے جانے کی خبر ملی تو امت پر رحمت و شفقت کے سبب بہت زیادہ روئے۔

اُمّت کے لئے اپنی رحمت کا بیان اپنے ہی الفاظ میں یوں ارشاد فرماتے ہیں : میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس آگ نے اِردگرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشراتُ الارض گرنے لگے ، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ اس پر غالب آ کر آگ میں دھڑا دھڑ گر رہے ہیں ، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے ، میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے ہٹ جاؤ!جہنم کے پاس سے ہٹ جاؤ!اور تم لوگ میری بات نہ مان کر (پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح) جہنممیں گرے چلے جا رہے ہو۔ [2]

بچّوں ، پرندوں ، جانوروں اور کفار کے لئے اظہارِ رحمت :

بچّوں پر ایسے رحیم کہ اگر دورانِ نماز کوئی بچہ رو پڑتا تو اس خیال سے کہ اس کی ماں پر کیا بیت رہی ہوگی نماز کو مختصر فرما دیتے۔ [3]

غور تو کیجئے کہ کیسے رسولِ رحمت ہیں کہ ایک بچّے اور اس کی ماں کی خاطر اپنے ربّ سے جاری سلسلۂ مناجات کو مختصر کردیتے ہیں۔

ایک چڑیا کے بچے کو کوئی اٹھا لیتاہے تو رسولِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اس کی بے قراری پر خود بے قرار ہوجاتے ہیں اور فوراً اس کے بچوں کو واپس دلاتے ہیں۔ [4]

اونٹ بلبلاتا ہوا آتا ہے ، خوراک کی کمی اور بوجھ کی زیادتی کی شکایت کرتا ہے تو اس کی بھی داد رسی فرماتے ہیں۔ [5]

صرف یہی نہیں بلکہ وہ جانور جسے چھری کے ساتھ ذبح کرلینا ہے اس پر وقتِ آخری بھی نرمی کرنے کا فرماتے ہیں ، اس کے سامنے چھری تیز نہ کرنے اور تیز ترین چھری کے ساتھ ذبح کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ [6]

اور تو اور وہ کفارِ ناہنجار جو پتھر مار مار کر لہولہان کردیتے ہیں ، اللہ کے فرشتے صرف ایک اشارۂ ابرو کے منتظر ہوتے ہیں کہ اجازت ملے اور وہ قوم ملیامیٹ کردی جائے لیکن اللہ! اللہ! میرے رءوف و رحیم آقا لَہولُہان ہو کر بھی فرماتے ہیں کہ “ مجھے امید ہے کہ اللہ کریم ان کی آنے والی نسلوں سے ایسے لوگوں کو نکالے گا جو اللہ وَحْدَہٗ لَاشَریک کی عبادت کریں گے اور شرک نہیں کریں گے۔ [7]

ایک بار کسی نے کفار کے بارے میں بَددُعا کرنے کا کہا تو فرمایا : اِنِّي لَمْ اُبْعَثْ لَعَّانًا ، وَاِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً یعنی مجھے لعنت کرنے والا نہیں بھیجا گیا میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ [8]

کسی شاعرنے آپ کی شانِ رحمت و رفعت کو کیا ہی خوب بیان کیا ہے :

رَبّاكَ رَبُّكَ جَلَّ مَنْ رَبَّاكَا

وَرَعَاكَ فِيْ كُنُفِ الْهُدٰى وَحَمَاكَا

ترجمہ : آپ کی تربیت آپ کے رب نے فرمائی ، کیا ہی شان والا ہے جس نے آپ کی تربیت فرمائی اور آپ کی پرورش ہدایت و رہبری کے سایہ میں کی اور آپ کی حمایت کی۔

سُبْحَانَه اَعْطَاكَ فَيْضَ فَضَائِل

لَمْ يُعْطِهَا فِي الْعَالَمِيْنَ سِوَاكَا

ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کو فضائل کے ایسے بہاؤ عطا کئے کہ ان کی مثل ساری کائنات میں آپ کے سوا کسی کو نہ دئیے۔

سَوَّاكَ فِيْ خُلُقٍ عَظِيْمٍ وَارْتَقٰى

فِيْكَ الْجَمَال فَجَلَّ مَنْ سَوَّاكَا

ترجمہ : آپ کو خُلقِ عظیم کا حسین پیکر بنایا اور آپ میں حُسن و جمال کو پروان چڑھایا تو کیا ہی عظیم رب ہے جس نے آپ کو عظیم بنایا۔

سُبْحَانَه اَعْطَاكَ خَيْرَ رِسَالَةٍ

فِي الْعَالَمِيْنَ بِهَا نُشِرَت هَدَاكَا

ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس نے آپ کو سارے جہانوں کیلئے رسول بنایا اور آپ کی رسالت کے سبب جہانوں میں ہدایت پھیلی۔

وَحَبَاكَ فِي يَومِ الْحِسَابِ شَفَاعَةً

مَحْمُوْدَةً مَّا نَالَهَا اِلَّاكَا

ترجمہ : اور آپ کو قیامت کے دن شفاعت اور مقام محمود عطا فرمایا جو آپ کے سوا کسی کو نہ ملا۔

اللهُ اَرْسَلَكُمْ اِلَيْنَا رَحْمَةً

مَا ضَلّ مَنْ تَبِعَتْ خُطَاهُ خُطَاكَا

ترجمہ : اللہ کریم نے آپ کو ہماری طرف رحمت بنا کر بھیجا جس کے پاؤں آپ کی اتباع میں اٹھیں وہ کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] پ11 ، التوبۃ : 128

[2] مسلم ، ص965 ، حدیث : 5957

[3] بخاری ، 1 / 253 ، حدیث : 709

[4] ابوداؤد ، 3 / 245 ، حدیث : 3089

[5] ابوداؤد ، 3 / 32 ، حدیث : 2549

[6] مسلم ، ص832 ، حدیث : 5055

[7] بخاری ، 2 / 386 ، حدیث : 3831

[8] مسلم ، ص1074 ، حدیث : 6613


Share

Articles

Comments


Security Code