بنتِ مدثر (جامعۃُ المدینہ فیضانِ عطّار ، ڈھوک کالاخان روالپنڈی)
ماہنامہ جون 2021
مشہور مقولہ ہے :
بااَدب بانصیب بے ادب بے نصیب
اَدب کرنے والا دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتا ہے جبکہ بے ادبی کرنے والا دنیا اور آخرت میں ذلت کا شکار ہوکر لوگوں کے لئے نمونۂ عبرت بن جاتا ہے ، بے ادبی انسان کو تباہی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔
کفارِ عرب کے سرداروں میں سے ایک نے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کی دعوتِ اسلام کے جواب میں اللہ پاک کی شان میں گستاخی کی تو اس پر بجلی گری اور وہ شخص ہلاک ہوگیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ترجَمۂ کنزُالایمان : اور کڑک بھیجتا ہے تو اسے ڈالتا ہے جس پر چاہے اور وہ اللہ میں جھگڑتے ہوتے ہیں اور اس کی پکڑ سخت ہے۔ [1]
معلوم ہواکہ اللہ پاک کی بارگاہ میں کوئی ایسا لفظ نہیں نکالنا چاہئے جو شانِ اُلوہیت میں بے ادبی قرار پائے۔ [2]
بارگاہِ رسالت میں بے ادبی کی نحوست سے ابولہب کا بیٹا عُتَیبہ شیر کا لقمہ بنا۔ [3] پانچ دشمنانِ رسول عاص بن وائل ، اَسْوَد بن مطلب ، اسود بن عبد یَغُوث ، حارث بن قیس اور ولید بن مغیرہ بھی بارگاہِ نبوت میں گستاخیوں اور بےادبیوں کے سبب ہلاکت کا شکار ہوئے۔ [4]
بہارِ شریعت میں ہے کہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی ادنیٰ سی گستاخی بھی کُفر ہے۔ [5] ثابت ہوا کہ بے ادبی وہ منحوس شے ہے جو انسان سے اس کا قیمتی سرمایہ ایمان تک چھین لیتی ہے۔
علم کی بے ادبی کرنے والا علم کی برکتوں سے محروم رہتا ہے۔ اپنے استاد کی بے ادبی کرنے والا علم حاصل کرلینے کے باوجود دوسروں تک پہنچانے میں ناکام رہتا ہے۔ [6]بزرگانِ دین کی بے ادبی کرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا جیسا کہ غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کے ساتھ ابنِ سقا ایک بزرگ کی زیارت کرنے کے لئے گیا ، غوث پاک نے تو ادب کی وجہ سے اعلیٰ مقام حاصل کیا مگر ابنِ سقا بے ادبیکی نحوست سے مرتد ہوگیا۔ [7]
ساداتِ کرام کی بے ادبی کرنے والا خود کو ان کے نانا جان رحمتِ عالمیان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی کا مستحق بنا لیتا ہے ، ماں باپ کی بے ادبی کرنے والا دنیا و آخرت میں اس کی سزا پاتا ہے ، تبرکات کی بے ادبی بھی بڑی خطرناک ہے ، قومِ عمالقہ کی پانچ بستیاں تابوتِ سکینہ کی بے ادبی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ [8] پیر کی بے ادبی کرنے والا مرید کبھی بھی نگاہِ مرشد پانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
خلاصۂ کلام یہ کہ ادب انسان کو ترقی کی منازل طے کرواتا ہے جبکہ بے ادبی انسان کو عروج سے زوال تک لے آتی ہے تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہر اس قول و فعل سے بچیں جس سے بے ادبی کا پہلو نکلتا ہو اس کے لئے ہمیں باادبوں کی صحبت اختیار کرنی ہوگی جبکہ بے ادبوں کے سائے سے بھی دور بھاگنا ہوگا۔
امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کیا خوب دعا کرتے ہیں :
محفوظ سدا رکھنا شہا! بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو[9]
[1] پ13 ، الرعد : 13
[2] عجائب القرآن مع غرائب القرآن ، ص326 ، 327 ماخوذاً
[3] سیرتِ مصطفیٰ ، ص696 ماخوذاً
[4] عجائب القرآن مع غرائب القرآن ، ص328 ماخوذاً
[5] بہارِ شریعت ، 1 / 47ماخوذاً
[6] راہِ علم ، ص32 ماخوذاً
[7] بہجۃ الاسرار ، ص19 ماخوذاً
[8] صراط الجنان ، 1 / 373 ماخوذاً
[9] وسائلِ بخشش(مرمم) ، ص315
Comments