دارالافتاءاہلِ سنّت
ماہنامہ جون 2021
کسی بھی دھات کا کڑا پہن کر نماز پڑھنا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل کئی نوجوانوں نے ہاتھوں میں لوہے ، پیتل وغیرہ کا کڑا پہنا ہوتا ہے ، اور ان میں سے جو نمازی ہوتے ہیں وہ اس کے ساتھ ہی نماز ادا کر لیتے ہیں۔ شرعی راہنمائی درکار ہے کہ مرد کے لیے دھات کا کڑا پہننا کیسا ہے؟ اور اس کو پہن کر نماز ادا کرنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مرد کے لیے لوہے یا پیتل یا کسی بھی دھات کا کڑا پہننا ، ناجائز ہے اور اس کو پہن کر نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے ، یعنی اس حال میں نماز ادا کرنا گناہ ہے اور اگر کرلی ہو تو اس کا اعادہ کرنا لازم ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب : ابوواصف محمد آصف عطّاری
مصدق : مفتی محمد ہاشم خان عطّاری
پُرانی قبروں پر 5یا 6فٹ مٹی ڈال کر نئی قبریں بنانا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک جگہ قدیم وقف قبرستان ہے جو قبور سے مکمل بھر چکا ہے ، کیا اس قبرستان میں تمام قبور پر پانچ ، چھ فٹ مٹی ڈال کر اُن پر نئی قبریں بنا سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صُورتِ مسئولہ میں قبورِمسلمین پر پانچ ، چھ فٹ مٹی ڈال کر اُن پر جدید قُبور بنانا ، ناجائز و حرام ہے ، کہ یہ قبورِ مسلمین کی سخت بے حرمتی اور ان کے لیے تکلیف کا باعث ہے ، کہ جس بات سے زندوں کو ایذا پہنچتی ہے مردے بھی اس سے تکلیف پاتے ہیں۔ جب قبر پر چلنا ، پاؤں رکھنا ، اس پر بیٹھنا ، اس پر راستہ بنانا جائز نہیں تو اس پر مستقل مکمل قبر بنانا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ اس میں مزید کئی خرابیاں بھی ہیں کہ مٹی ڈالنے کے لیے ان پر ٹریکڑ ، ٹرالی یا دیگر بار برداری والی گاڑیوں یا پیدل اٹھا کر مٹی ڈالنا ہوگی ، اوپر نئی قبریں کھودتے ہوئے ، جنازہ لاتے ہوئے ظنِّ غالب ہے کہ قُبور پر چلنا ، پھرنا راستہ بنانا وغیرہ پایا جائے اور شرعاً یہ افعال سخت حرام ہیں کہ اس میں مُردوں کی توہین اور ایذا ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب : ابوواصف محمد آصف عطّاری
مصدق : مفتی محمد ہاشم خان عطّاری
اسلام کے خلاف باتیں کرنے والے اسکول یا کالج میں اپنے بچّوں کو تعلیم دلوانا کیسا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایسا اسکول یا کالج ، جس کا پرنسپل عیسائی ہو ، اس میں بچّوں کو ڈانس سکھایا جاتا ہو ، پڑھانے والوں میں آدھی تعداد عیسائیوں کی ہو اور عیسائی پرنسپل وغیرہ وقتاً فوقتاً اسلام کے خلاف بچّوں کے اذہان میں باتیں ڈال کر انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے ہوں ، ایسے اسکول یا کالج میں اپنے بچّوں کو تعلیم دلوانا شرعاً دُرست ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ایسا اسکول یا کالج ، جس کا پرنسپل عیسائی ہو ، اس میں بچوں کو ڈانس سکھایا جاتا ہو ، پڑھانے والوں میں آدھی تعداد عیسائیوں کی ہو اور عیسائی پرنسپل وغیرہ وقتاً فوقتاً اسلام کے خلاف بچوں کے اذہان میں باتیں ڈال کر انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے ہوں ، ایسے اسکول یا کالج میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی شریعت کی طرف سے ہرگز اجازت نہیں ، ایسے اسکول یا کالج میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا انہیں شریعت اور اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے پیش کرنا ہے ، ایسی جگہوں پر اپنے بچوں کو تعلیم وہی دلوائے گا جسے بچوں کی آخرت کی فکر نہیں ، قرآنِ پاک توحکم فرماتا ہے کہ اپنے گھر والوں کو جہنم سے بچاؤ اور یہ ان کو جہنم کا ایندھن بننے کا سامان کرتے ہیں۔
قرآنِ پاک میں ارشاد خداوندی ہے : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ) ترجَمۂ کنزُ الایمان : اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ (پ28 ، التحریم : 6) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
فتاویٰ رضویہ میں ہے : “ غیر دین کی ایسی تعلیم کہ تعلیم ضروری دین کو روکے مطلقاً حرام ہے ، فارسی ہو یا انگریزی یا ہندی ، نیزان باتوں کی تعلیم جو عقائدِ اسلام کے خلاف ہیں جیسے وجودِ آسمان کا انکار یا وجودِ جن و شیطان کا انکار یا زمین کی گردش سے لیل و نہار یا آسمانوں کا خرق و التیام محال ہونا یا اعادۂ معدوم ناممکن ہونا وغیر ذٰلک عقائدِ باطلہ کہ فلسفہ قدیمہ جدیدہ میں ہیں ان کا پڑھنا پڑھانا حرام ہے کسی زبان میں ہو نیز ایسی تعلیم جس میں نیچریوں دہریوں کی صحبت رہے ان کا اثر پڑے دین کی گرہ سست ہو یا کھل جائے۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 23 / 706)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجیب : محمد عرفان مدنی
مصدق : مفتی محمد ہاشم خان عطّاری
اپنا مال بیچنے کے لئے سیلز مین کو کمیشن دینے کا حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں گارمنٹس کا کام کرتا ہوں کہ سامان تیار کر کے یا خرید کر دکانوں پر سپلائی کرتا ہوں ، میں اپنا مال بیچنے کے لئے مارکیٹ میں دکانوں میں جو سیلز مین ہوتے ہیں ان کو کمیشن دیتا ہوں تا کہ سر دست میرا مال فروخت کریں ، جبکہ دکان کے مالک کو اِس کمیشن کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ میں اُس کے ملازم کو کمیشن دیتا ہوں ، میرے مال کی کوالٹی میں کِسی طرح کی کوئی کمی نہیں ہوتی ، مجھے مجبورا کمیشن دینا پڑتا ہے ، اگر میں سیلز مین کو کمیشن نہ دوں تو وہ میرا مال فروخت نہیں کرتا ، اور یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ مارکیٹ میں سب پارٹیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ مال نہ بکنے کی صورت میں واپس کر دیا جاتا ہے ، شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس حالات میں سیلز مین کو کمیشن دینا درست ہے یا نہیں ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورتِ مسئولہ میں آپ کمیشن کے نام پر جو کچھ سیلز مین کو دیتے ہیں وہ کمیشن نہیں بلکہ رشوت ہے ، اوررشوت لینا ، دینا ناجائز وحرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ، اورقرآن وحدیث میں اِس پر سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ نے سامان دکاندار کو بیچ دیا تو وہ اب آپ کا نہ رہا بلکہ دکاندار کا ہو گیا لہٰذا اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اپنا مال بیچنے پر کمیشن دے رہا ہوں ، بلکہ آپ اپنا کام نکلوانے کے لئے مال دے رہے ہیں کہ سیلز مین کو کچھ مال دوں تاکہ یہ سر دست ترجیحی طور پر میری پروڈکٹ سیل کریں تو مزید مال آئے اور اس طرح اپنی منشاء (مراد ، چاہت) پوری کرنے کے لئے جو مال دیا جاتا ہے وہ رشوت کہلاتا ہے۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے(وَ تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۶۲))ترجمہ : اور اُن میں تم بہتوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور زیادتی اور حرام خوری پر دوڑتے ہیں بے شک بہت ہی برے کام کرتے ہیں۔ (پ6 ، المائدۃ : 62) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ “ لعن رسولُ اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم الراشی والمرتشی “ ترجمہ : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رشوت لینے والے اور دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (ابو داؤد ، 2 / 148)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ مفتی محمد ہاشم خان عطّاری
Comments