خبر جن کے آنے کی نبیوں نے دی ہے

باتیں میرے حضور کی

خبر جن کے آنے کی نبیوں نے دی ہے

* مولاناکاشف شہزاد عطاری مدنی

ماہنامہ جون 2021

سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ایک خصوصی فضیلت یہ ہے کہ توریت و انجیل سمیت گزشتہ آسمانی کتابوں میں آپ کے اوصاف و کمالات بیان کئے گئے اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی دنیا میں تشریف آوری کی بشارت دی گئی۔ [1]نیز گزشتہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اپنی اُمّتوں کے سامنے آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اوصافِ حمیدہ بیان کرتے اور ذکرِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے اپنی مجالس کو مُنَوَّر فرماتے تھے۔ [2]

وہ ختم الانبیاء تشریف فرما ہونے والے ہیں

نبی ہر ایک پہلے سے سناتا یہ خبر آیا[3]

اے عاشقانِ رسول!ہمارے پیارے آقا ، محبوبِ خدا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شان و عظمت کا بیان اور آپ کی تشریف آوری کی خوش خبری گزشتہ آسمانی کتابوں میں ذکر کی گئی ، انبیائے کرام  علیہم الصّلوٰۃ والسّلام  اپنی اپنی ا متوں کے سامنے اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اوصافِ جلیلہ بیان کرکے آپ پر ایمان لانے کی تاکید فرماتے رہے۔ قراٰنِ کریم کی 4آیات اور ان کے تحت کچھ نکات ملاحظہ فرمائیے :

(1) بیٹوں کی طرح پہچاننا : ( اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْؕ-) ترجمۂ کنزُالعرفان : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے(یعنی علمائے یہود و نصاریٰ )[4]وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ [5] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اے عاشقانِ رسول !گزشتہ آسمانی کتابوں میں سَیّدِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اوصاف ایسے واضح اور صاف انداز میں بیان کئے گئے تھے جس سے علمائے اہل کتاب کو حضور پر نور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اللہ پاک کا آخری نبی ہونے میں کچھ شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا تھا اور وہ حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اس بلند منصب کو کامل یقین کے ساتھ جانتے تھے۔ یہودی عُلَما میں سے حضرت سیّدنا عبدُاللہ بن سلام  رضی اللہُ عنہ  جب مسلمان ہوئے تو حضرت سیدنا عمر فاروق  رضی اللہُ عنہ  نے ان سے پوچھا : اس آیت میں جس پہچان کا ذکر کیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے جواب دیا : اے عمر! میں نے حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو دیکھا تو فوراً پہچان لیا جیسے میں اپنے بیٹے کو پہچان لیتا ہوں بلکہ میرا آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو پہچاننا اپنے بیٹے کو پہچاننے سے بھی زیادہ ہے کیونکہ اللہ پاک نے آپ کے اوصاف ہماری کتاب میں بیان فرمائے ہیں۔ [6]

(2) بشارتِ عیسیٰ علیہ السّلام : (وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-)ترجمۂ کنزُالعِرفان : اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے فرمایا : اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گےان کانام احمدہے۔   [7] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تَصَدُّق ایسی رِفعت پر کہ برسوں قبل دنیا میں

سناتے آئے مُژدہ حضرتِ عیسیٰ محمد کا[8]

نعلین برداری کی خواہش : اے عاشقانِ رسول! اسلام کے ابتدائی دور میں سركارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  كے حکم پر کفّارِ مکہ کے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے کئی مسلمان مکۂ مکرمہ سے ہجرت کرکے نجاشی بادشاہ کے ملک حبشہ پہنچے اور وہاں بادشاہ کے دربار میں ان کی گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے آخر میں بادشاہ نجاشی  رحمۃُ اللہ علیہ  نے فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اللہ پاک کے رسول ہیں۔ ہم ان کا ذکرِ خیر انجیل میں پاتے ہیں اور یہ وہی رسول ہیں جن کے آنے کی خبر حضرت سیّدنا عیسیٰ  علیہ السّلام  نے دی تھی۔ اگر مجھ پر حکومتی ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی نعلین مبارک اٹھانے کی سعادت حاصل کرتا اور انہیں وضو کرانے کی خدمت بجا لاتا۔ [9]

(3) مٹانے کے باوجود نشانیاں باقی : ( اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-)ترجمۂ کنزُالعِرفان : وہ جواس رسول کی اتباع کریں جو غیب کی خبریں دینے والے ہیں ، جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، جسے یہ (اہلِ کتاب) اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ [10]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

پیارے اسلامی بھائیو! ہر دور میں اہلِ کتاب اپنی کتابوں میں موجود ذکرِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  چھپانے اور مٹانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے لیکن ان کی طرف سے ہزاروں تبدیلیاں ہونے کے باوجود بھی ان کتابوں میں سَیّدِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے متعلق بشارتوں کا کچھ نہ کچھ نشان باقی رہ ہی گیا۔ تفصیل جاننے کے لئے مذکورہ آیتِ مقدّسہ کے تحت تفسیر ِخزائن العرفان یا پھر تفسیرِ صراطُ الجنان جلد 3 ص450 ملاحظہ فرمائیے۔

کتابِ حضرتِ موسیٰ میں وَصف ہیں ان کے

کتابِ عیسیٰ میں ان کے فسانے آئے ہیں

انہیں کی نعت کے نغمے زَبور سے سن لو

زبانِ قرآں پہ ان کے ترانے آئے ہیں[11]

(4) انبیائے کرام سے عہد لیا گیا : ( وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-)ترجمۂ کنزُالعرفان : اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گا پھر تمہارے پاس وہ عظمت والارسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو گاتو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ [12]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیت میں رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ایک صفت یہ بیان کی گئی کہ آپ گزشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق فرمانے والے ہیں۔ عَلاءُ الدّین حضرت علامہ علی بن محمد خازِن  رحمۃُ اللہ علیہ  اس کے تحت فرماتے ہیں : اللہ پاک نے گزشتہ نبیوں کی کتابوں میں اپنے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اوصاف اور حالات بیان فرمائے تھے ، جب آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے ان کتابوں میں بیان کردہ اوصاف اور حالات ظاہر ہوئے تو ان کتابوں کا سچا ہونا ثابت ہوگیا۔ [13]

شیرِ خدا حضرت سیّدنا علیُّ المرتضیٰ  کرّم اللہُ وجہہ الکریم  فرماتے ہیں : اللہ پاک نے حضرت آدم  علیہ السّلام  سے لے کر آخر تک جتنے نبی بھیجے سب سے محمدٌ رَّسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بارے میں عہد لیا گیا کہ اگرآپ اس نبی کی زندگی میں مَبْعُوث ہوں(یعنی اپنی نبوت کا اعلان فرمائیں) تو وہ آپ پرایمان لائیں ، آپ کی مدد کریں اور اپنی اُمّت سے بھی ان باتوں کا عہد لیں ۔ [14]

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہ علیہ  اس آیتِ مُقدسہ کے تحت فرماتے ہیں : اس عَہدِ ربّانی کے مطابق ہمیشہ حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء نشرِمنَاقب وذکرِ مَناصِبِ حضور سَیِّدُ الْمُرْسَلِین صَلوٰۃُ اللہ وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین سے رَطْبُ اللِّسَان رہتے (یعنی حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے فضائل اور مقام و مرتبے کے بیان سے اپنی زبانوں کو تر رکھتے) اور اپنی پاک مبارک مجالس ومحافل ملائک منزل(یعنی وہ محفلیں جن میں فرشتے نازل ہوتے ہیں ان) کو حضور کی یاد ومدح سے زینت دیتے ، اور اپنی امتوں سے حضورپرنور( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )پر ایمان لانے اور (آپ کی) مدد کرنے کا عہد لیتے۔ [15]

جتنے اللہ نے بھیجے ہیں نبی دنیا میں

تیری آمد کی خبر سب ہیں سنانے والے[16]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی

 



[1] خصائص کبریٰ،1/18

[2] فتاویٰ رضویہ،30/135مفہوماً

[3] قبالۂ بخشش،ص65

[4] خزائن العرفان

[5] پ2،البقرۃ:146

[6] تفسیر خازن،1 /100 البقرۃ، تحت الآیۃ: 146

[7] پ28، الصَّفّ:6

[8] قبالۂ بخشش،ص52

[9] ابوداؤد،3/285، حدیث: 3205، مسند احمد، 2/187، حدیث: 4400

[10] پ9،الاعراف:157

[11] سامانِ بخشش،ص141

[12] پ3،اٰلِ عمرٰن:81

[13] تفسیر خازن،1/268

[14] الشفا،1/44

[15] فتاویٰ رضویہ،30/135

[16] حدائقِ بخشش،ص484


Share