اسلامی بہنوں کے لئے
تضاد
بنتِ رمضان نقشبندیہ عطّاریہ
ماہنامہ جون 2021
معاشرے میں موجود بُرائیوں میں سے ایک بہت بڑی بُرائی ساس کا بہو کے ساتھ یا بہو کا ساس کے ساتھ نامناسب رویہ و انداز ہے ، اس کا احساس ایک دعوت میں جا کر ہوا کہ جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو گھر کی بڑی خاتون (جو کہ بیک وقت ساس اور ماں تھیں ، انہوں) نے اپنی بیٹی سے پیار بھرے لہجے میں کہا “ بیٹی! برتن اُٹھا لو “ لیکن بیٹی کسی کام میں مصروف تھی اس نے ماں کی بات نہ سنی ، اِتّفاق سے اسی وقت بہو کمرے میں داخل ہوئی تو ساس نے سختی سے کہا “ نظر نہیں آرہا؟ جلدی سے دستر خوان اور برتن اُٹھاؤ۔ “ معاشرے میں اس طرح کی مثالیں عام ہیں ، اسی طرح بہت سے ایسے واقعات بھی ہیں جن میں بہو کا ساس کے ساتھ نامناسب انداز دیکھنے کو ملتا ہے۔ عُموماً ساسیں محدود ذہنیت اور کئی باتوں میں اَنا پرستی کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کے باعث بہوؤں سے ان کی تکرار ہوتی رہتی ہے۔ نتیجۃً ہوتا یہ ہے کہ بَسا بسایا گھر اُجَڑ جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سی بہوؤں میں بھی ضِد ، زبان کی تیزی ، خود غرضی اور کسی کو گھاس نہ ڈالنے کی عادت ہوتی ہے جو کہ خود اس کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ یاد رکھئے! ساس کا اپنی بیٹی اور بہو میں یوں فرق کرنا قابلِ مذمت ہے ، اسی طرح بہو کا اپنی ماں ہی کو عزت دینا اور شوہر کی ماں کے ساتھ اچھا سلوک نہ رکھنا غیر معقول ہے ، اسلام ایسی دو رُخی ، تضاد اور ناانصافی کی اجازت نہ ماں کو دیتا ہے نا ہی ساس کو ، ایسی ساسوں کو چاہئے کہ وہ انصاف سے کام لیں ، یہ نہ ہو کہ بیٹی کی بڑی سے بڑی غلطی کو نظر انداز کردیا جائے اور بہو نے اگر کوئی چھوٹی سی بھی غلطی کر دی تو اسے اندھی اور نکمی ہونے کا طعنہ دیا جائے نیز طنز کے تیر پھینکنے سے بھی گُریز نہ کیا جائے۔ آیئے ساس اور بہو کے آپس میں اختلافات اور منافرت کی کچھ مزید مثالیں ملاحظہ کیجئے چنانچہ
* بیٹی کے گھر بچّے کی ولادت ہو تو سُسرال والوں سے کہنا کہ میری بچّی نے اتنی تکلیف اُٹھائی ہے آپ اس کا پورا پورا دھیان رکھنا اور اگر بہو کے گھر ولادت ہو تو ساس کہتی ہے : ارے ہمارے بھی اتنے بچے ہوئے ہیں لیکن ہم نے دو دن سے زیادہ آرام نہیں کیا ، بس آج کل کی لڑکیاں تو بالکل ڈھیلی اور کام چور ہوگئی ہیں !
* اگر بیٹی روٹھ کر میکے آئی تو بس اب بیٹی کے شوہر اور سُسرال والوں کی خیر نہیں انہیں سخت بُرا بھلا کہا جاتا ہے لیکن اگر بہو روٹھ کر میکے چلی جائے تو ایسی صورت میں بہو کو ہی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے اور اس بات کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی کہ کیا واقعی بہو کا کوئی قصور ہے بھی یا نہیں؟ ایسے مواقع پر ساس یہ کیوں نہیں سوچتی کہ میرا بیٹا بھی اُسی طرح میری بہو کا خیال رکھے جس طرح میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کا خیال رکھا جائے ، اسی طرح بہو کا چھوٹے موٹے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے ساس یا نندوں وغیرہ سے بات چیت چھوڑ دینا ، تعلق توڑ لینا دُرست انداز نہیں ہے۔ ذرا سوچئے! وہ جیسی بھی سہی ، ہیں تو مسلمان! لہٰذا مسلمان ہونے کے ناطے ہی ان کا اکرام و احترام کرلیا جائے۔ یقیناً رب سب کچھ دیکھ رہا ہے وہ ہماری اچھی نیت پر ہمیں ضرور اس کا صلہ دنیا و آخرت میں عطا فرمائے گا۔
بہرحال ساس اور بہو کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر آپ اپنی زندگی اور گھر کو پُرسکون بنانا چاہتی ہیں ، خوشحال زندگی گزارنا چاہتی ہیں اور یہ چا ہتی ہیں کہ آپ کی زندگی دوسروں کے لئے آئیڈیل ہوجائے ، لوگ آپ کی مَحبّت ، اتّفاق و اتّحاد کی مثالیں دیں تو آپس میں خوب محبت سے رہیں نیز ایک دوسری کا خیال رکھنے والی بن جائیں۔ اس کے لئے چند طریقے بھی ملاحظہ کیجئے اور ان پر عمل کی نیت کیجئے :
* بہو اور ساس کو چاہئے کہ اپنے لہجے میں نرمی لائیں اور پیار محبت سے آپس میں گفتگو کریں ۔
* بہو اپنی ساس کو اپنی ماں کی طرح اور بزرگ سمجھے اور ساس بہو کو بیٹیوں کی طرح پیار کرے اور اس کی بات کو غلط انداز میں نہ سوچے ۔
* دونوں کے مزاج میں ہمیشہ دھیما پن ہو غصہ اور گھن گرج نہ ہو ۔
* دونوں کو چاہئے کہ اپنے غصے پر کنٹرول کریں ۔
* دونوں کو چاہئے کہ صبر ، برداشت اور دَرگزر سے کام لیں ۔
* ساس اور بہو آپس میں ایک دوسرے سے ہونے والی غلطیوں کو نظر انداز کر یں اور معاف کریں ۔
* کسی کے بھی سامنے ایک دوسرے کی بُرائی بیان نہ کریں۔
* دونوں ایک دوسرے کی غیبت ، چغلی وغیرہ بھی کسی سے نہ کریں ۔
* دونوں ایک دوسرے کے حقوق کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرتی رہیں ۔
* ساس اور بہو آپس میں ایک دوسرے کا ادب و احترام بجالاتی رہیں ۔
* اگر ساس یا بہو آپس میں کسی کی محبت دل میں کم ہوتی محسوس کریں یا دل میں کینہ پیدا ہوتا ہوا محسوس ہو تو اُس کے لئے خوب دُعائیں کریں۔ اگر ساس اور بہو آپس میں ان مدنی پھولوں کو اپنالیں گی اور ان اصولوں کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کا عزمِ مُصَمَّم کرلیں گی تو اِنْ شآءَ اللہ دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گی اور اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے والی بن جائیں گی۔ اِنْ شآءَ اللہ!
Comments