احکام تجارت
* مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ جون 2021
پارٹنر شپ کے لئے کتنے فیصد رقم لگانا ضروری ہے؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ چندافرادمل کر مشترکہ کمپنی بناکر کام کرناچاہتے ہیں ، یہ ارشادفرمائیں کہ شرکت قائم کرنے کے لیے کسی شریک کے لیے کم ازکم کتنے فیصدرقم ملاناضروری ہے ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : سوال میں پوچھی گئی صورت کا تعلق شرکتِ عنان سے ہے اس قسم میں شرکاء کی رقم یکساں ہوناضروری نہیں ، کم و بیش بھی ہوسکتی ہے ، لہٰذا کوئی بھی فردشرکت میں جتنی چاہے رقم ملاسکتا ہے ، شرعاً کوئی حدبندی نہیں۔
بہارِ شریعت میں ہے : “ شرکت عنان میں یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی میعاد مقرر کردی جائے مثلاً ایک سال کے لیے ہم دونوں شرکت کرتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ دونوں کے مال کم و بیش ہوں برابرنہ ہوں ۔ ‘‘(بہارِ شریعت ، 2 / 499 ، ردالمحتار ، 6 / 478)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نفع اور نقصان کی تقسیم کاری کا کیا طریقہ ہوگا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر برانڈ کا نام ، رجسٹریشن ، محنت ، مصنوعات کی تیاری اور ترسیل وغیرہ سب کچھ ایک فریق کی طرف سے ہواور وہ شرکت میں صرف10,000روپے کاحصہ ملائے جبکہ دوسرا فریق 90,000روپے ملائے تو اس صورت میں کیا کام کرنے والا فریق اپنا نفع%80اور دوسرے فریق کا نفع % 20رکھ سکتا ہے؟ اور نقصان ہونے کی صورت میں نقصان کی رقم کی تقسیم کاری کا کیا طریقہ کار ہوگا؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : اگر ایک شریک عامل ہو یعنی ورکنگ پارٹنر ہو اور اس کے لیے ، اس کے دئیے گئے راسُ المال یعنی کیپٹل کے تناسب سے زیادہ نفع مقررکرنے کی شرط لگائی جائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں البتہ شرکت کا معاہدہ ہوتے وقت دونوں فریقین کو علم ہونا ضروری ہے کہ کس کا نفع کیا ہوگا۔
پوچھی گئی صورت میں جس فریق نے صرف دس ہزار روپے ملائے اور وہ ورکنگ بھی کر رہا ہے تو اپنے کیپٹل کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر کر سکتا ہے لہٰذا اس نے اپنے لئے 80 فیصد نفع طے کیا ہے تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔ (ردالمحتار ، 6 / 479)
البتہ نقصان کا اصول یہ ہے کہ جس کا جتنا فیصد سرمایہ یعنی کیپٹل ہے وہ صرف اتنے فیصد نقصان کو برداشت کرے گا۔
بہارِ شریعت میں ہے : “ نفع میں کم و بیش کے ساتھ بھی شرکت ہوسکتی ہے مثلاً ایک کی ایک تہائی اور دوسرے کی دو تہائیاں ، اور نقصان جو کچھ ہوگا ، وہ راس المال کے حساب سے ہوگااس کے خلاف شرط کرناباطل ہے۔ ‘‘ (بہارِ شریعت ، 2 / 491 ، ردالمحتار ، 6 / 469)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
معاہدہ شرکت کی کم یا زیادہ مدت کتنی ہوسکتی ہے؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شرعی اعتبار سے معاہدہ شرکت کی مدت کم از کم یا زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ ہو سکتی ہے ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : شرکت کی مدت کے لیے کوئی حدبندی نہیں ہے ، باہمی رضامندی سے کوئی بھی مدت طے کی جاسکتی ہے۔ (ردالمحتار ، 6 / 478)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نفع کی تقسیم سال میں ایک بار ہوگی یابار بار؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے کاروبار کی نوعیت ایسی ہے کہ چند ماہ میں مصنوعات فروخت ہونے پر رقم مل جاتی ہے یوں اس طرح ایک سال میں اس پیسے سے کئی بار دوبارہ مصنوعات خرید کر بیچی جا سکتی ہیں تو اس صورت میں ہم سرمایہ کار کو سال میں ایک بار طے شدہ فیصد کے اعتبار سے نفع دیں گے یا ہر بار مصنوعات فروخت ہونے پرنفع دیں گے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : شرعی اصولوں کے مطابق شرکت قائم ہوجانے کے بعداُس جنسِ تجارت سے جوخریداری کی جاتی ہے وہ سب شرکت سے بنائی گئی کمپنی کے لیے ہوتی ہے ، اس لیے پوچھی گئی صورت میں جومال اس تجارت کی جنس سے تعلق رکھتا ہو اُسے جتنی بار خریدا جائے وہ مشترکہ ہوگا اور اس کے بیچنے میں جو نفع ہوگا اس میں ہرایک شریک کا مقررکردہ حصہ بنتا رہے گا ، لہٰذا جب حساب کیاجائے تو تمام خرید و فروخت کے نفع کو شامل کرکے ہرایک شریک کو اس کے طے شدہ حصے کے مطابق نفع دیاجائے گا۔
رہی یہ بات کہ حساب کتاب ہر ڈیل پر کرکے نفع تقسیم کرنا ہے یا سال بعد یا کسی بھی موقع پر کرنا ، یہ ایک اختیاری اور انتظامی مسئلہ ہے فریقین اس کو اپنی مرضی سے طے کر سکتے ہیں۔
بہارِ شریعت میں ہے : “ اگرعقدِشرکت کے بعد خریدی اور یہ چیز اس نوع میں سے ہے جس کی تجارت پر عقد شرکت واقع ہواہے تو شرکت ہی کی چیز قرار پائے گی ۔ ‘‘(بہارِ شریعت ، 2 / 500 ، ردالمحتار ، 6 / 469)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نفع کی شرح فیصد ، نفع پر طے کی جائے گی یا سرمایہ پر؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ نفع کی شرح فیصد کاروبار سے حاصل ہونے والے نفع پر طے کی جائے گی یا سرمایہ کی رقم پر؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : کاروبار میں اخراجات نکال کر سرمایہ یعنی کیپٹل سے اوپر جو رقم بچے اسے نفع کہتے ہیں اور اخراجات نکال کر اگر کیپٹل سے بھی کمی ہو تو وہ نقصان کہلاتا ہے ۔
مشترکہ کاروبار میں ایک یا زائد فریق جو کام کرتے ہیں ان کا اصل مقصود نفع کا حصول ہوتا ہے ۔ شرکت کا معاہدہ کرتے وقت فریقین ایک تناسب اور فیصد طے کرتے ہیں کہ نفع ہوا تو اس تناسب سے اس کو تقسیم کریں گے۔ لہٰذا نفع ہونے پر اسی طے شدہ فارمولے سے رقم تقسیم ہوگی۔ نفع کس کو کتنا فیصد ملے گا یہ مقرر کرنے میں فریقین بہت ساری چیزوں کو دیکھ کر اتفاق کرتے ہیں مثلاً کیپٹل کس کا زیادہ ہے یا کام کون کتنا کر رہا ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں۔ بس یہ ضروری ہے کہ جو کام نہیں کر رہا یعنی اس نے سرمایہ تو ملایا ہے لیکن سلیپنگ پارٹنر ہے وہ اپنے کیپٹل کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر نہیں کر سکتا مثلاً اس فریق نے 30 فیصد رقم ملائی اور کام بھی نہیں کر رہا تو یہ پچاس فیصد نفع مقرر نہیں کر سکتا۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے : “ لو کان المال منھما فی شرکۃ العنان والعمل علی احدھما۔ ۔ ۔ لو شرطا الربح للدافع اکثر من راس مالہ لم یصح الشرط “ یعنی : اگر اس طرح شرکت ہوئی کہ مال دونوں کا ہوگا لیکن کام ایک کرے گاتو کام نہ کرنے والے کے لئے اس کے سرمایہ سے زیادہ نفع کی شرط لگانا درست نہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری ، 2 / 320)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کیا چلتے کاروبار میں شرکت کرسکتے ہیں؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا چلتے کاروبار میں شرکت کر سکتے ہیں ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : چلتے کاروبار میں شرکت کرنا ، جائز نہیں کیونکہ اس طریقۂ کار میں شرکت کی بنیادی شرائط نہیں پائی جاتیں۔ اگر پہلے سے کوئی کام چل رہا ہے اور اس چلتے کام میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو کسی ایک یا زائد آئٹم میں شرکت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کرلیں اور ان کا الگ سے حساب کتاب رکھا جائے۔ اگر کل کاروبار میں دوسرے کو شریک کرنا ہے تو پھر پہلا کام سارا حساب کتاب کرنا ہوگا کہ کتنا مال ہے کتنا سرمایہ ہے اور اس کی مختلف صورتیں بنیں گی۔ ممکن ہے کاروبار میں رقم بالکل نہ ہو بلکہ صرف سامان ہو اور اس کے علاوہ بھی صورتیں بن سکتی ہیں۔ ساری کلوزنگ کرنے کے بعد پھر مستند مفتیانِ کرام سے رہنمائی لی جائے کہ نقدی کی یہ تفصیل ہے اور اس کے علاوہ چیزوں کی یہ تفصیل ہے۔ پھر اس کی روشنی میں شرعی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ اس تعلق سے دارُ الافتاء اہلسنّت کے تفصیلی فتاویٰ کا مطالعہ بھی کریں۔ نیز مدنی چینل کے ہفتہ وار پروگرام “ احکامِ تجارت “ میں بھی اس بات کو متعدد بار تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ چلتے کاروبار میں شرکت کیوں نہیں ہوسکتی اور اگر کرنی ہے تو کیا طریقہ اپنا یا جا سکتا ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
معاہدہ شرکت کو ختم کرنے کا طریقہ کار کیاہے؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دو فریق کا ایک مشترکہ کام چل رہا تھا اس کو ختم کرنے کا طریقہ کار کیاہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : جو شریک عقدِ شرکت کوختم کرناچاہتاہے اسے اس بات کا اختیار ہے کہ شرکت کوختم کردے ، دوسرے شرکاء کی رضا مندی ضروری نہیں ، جبکہ دوسرے شریک کو شرکت کے فسخ کا علم ہو ، البتہ سرمایہ نکالنے کے لئے کاروبارکی پوزیشن دیکھ کر فریقین باہمی رضا مندی سے کسی مناسب وقت پر اتفاق کرلیں۔ اگرسرمایہ ہاتھ میں نہ ہو بلکہ لوگوں سے وصول کرنا ہو تو ایک فریق اس بات کا پابندنہیں کہ دوسرے فریق کو رقم اپنی جیب سے ادا کرے ۔ بلکہ جیسے جیسے رقم آتی رہے گی دونوں فریق اپنا حصہ اس سے لیتے رہیں گے۔
بہارِ شریعت میں ہے : “ دونوں میں ایک نے شرکت کوفسخ کردیا ، اگرچہ دوسرا اس فسخ پر راضی نہ ہوجب بھی شرکت فسخ ہوگئی ، بشرطیکہ دوسرے کو فسخ کا علم ہو اور دوسرے کو فسخ کا علم نہ ہوا تو فسخ نہ ہوگی۔ اور یہ شرط نہیں کہ مال شرکت روپیہ اشرفی ہو بلکہ اگر تجارت کے سامان موجودہیں جو فروخت نہیں ہوئے اور ایک نے فسخ کردیا جب بھی فسخ ہوجائے گی ۔ ‘‘ (بہارِ شریعت ، 2 / 513 ، ردالمحتار ، 6 / 500)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* دار الافتاء اہل سنت ، نور العرفان کھارادر ، کراچی
Comments