اللہ پاک کوناپسند3 باتیں
* مولانا ابو الحسان عطاری مدنی
ماہنامہ جون 2021
حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا : قِيلَ وَقَالَ وَاِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ یعنی اللہ پاک تمہارے لئے 3 باتوں کو ناپسند فرماتا ہے : (1)قِیل و قَال (2) مال ضائع کرنا (3) کثرت سے سوال کرنا ۔ [1]
حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے حضرت سیّدُنا مُغیرہ بن شُعبہ رضی اللہُ عنہ کی طرف خط کے ذریعے پیغام بھیجا کہ کوئی ایسی حدیثِ پاک لکھ کر میری طرف روانہ کریں جو آپ نے خود سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنی ہو۔ حضرت سیّدُنا مُغیرہ بن شُعبہ رضی اللہُ عنہ نے جواباً تحریر فرمایا کہ میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ، پھر مذکورہ حدیثِ پاک بیان کی۔
اے عاشقانِ رسول!اس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جن 3 باتوں کو اللہ پاک کا ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے ان کی مختصر وضاحت ملاحظہ فرمائیے :
(1)قِیل و قَال : قِیل و قَال کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بے فائدہ گفتگو کی کثرت سے منع فرمایا۔ اس ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ بے فائدہ گفتگو کی کثرت کرنے والا اپنی گفتگو میں خطا اور غلطی سے نہیں بچ سکتا۔ [2]نیز اس طرح کی فُضول گفتگو سے دل سخت اور وقت ضائع ہوتا ہے۔ [3]
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : جس شخص کی گفتگو زیادہ ہو اس کی غَلَطیاں زِیادہ ہوتی ہیں ، جس کی غَلَطیاں زیادہ ہوں اُس کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں اور جس کے گناہ زیادہ ہوں وہ دوزخ کے زیادہ لائق ہے۔ [4]
(زبان کی احتیاطیں جاننے اور سمجھنے نیز خاموشی کے فوائد جاننے کے لئے ان رسائل کو ضرور پڑھئے۔ “ خاموش شہزادہ “ ، “ جنّت کی دو چابیاں “ ، “ ایک چُپ سو سُکھ “ ۔ )
(2)مال ضائع کرنا : مال ضائع کرنے کی بے شمار صورتیں ہیں : اس كی حفاظت نہ کرنا ، مال بڑھانے کی کوشش نہ کرنا ، جو موجود ہے اسی کو بیٹھے بیٹھے کھانا ، فضول خرچی کرنا ، گناہوں میں خرچ کرنا ، اپنی حیثیت سے زیادہ انعام و اکرام پیش کرنا ، جن چیزوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے انہیں پھینک دینا وغیرہ وغیرہ۔ [5]
(2)کثرتِ سوال : بکثرت سوال کرنے کی ممانعت میں شرعی اجازت کے بغیر دوسروں سے مال وغیرہ مانگنا اور علمائے کرام سے غیر ضروری و فضول سوالات کرنا دونوں شامل ہیں۔ [6]
مال کے سوال کا وبال : فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : آدمی (مال کا) سوال کرتا رہے گا ، یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہوگا۔ [7] یعنی نہایت بے آبرو (بے عزت) ہوکر (آئے گا)۔ [8]
(مانگنے کی مذمت و نحوست پر تفصیل جاننے کے لئے “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ شوال 1438 تا ذوالقعدۃ الحرام 1438 کا مضمون “ بھیک اور بھکاری “ پڑھئے۔ یہ ماہنامہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ )
غیر ضروری علمی سوالات نہ کئے جائیں :
ایک مسلمان کے لئےضروری مسائل کا علم حاصل کرنا اور علمائے کرام سے شرعی راہنمائی لینا ضروری ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : ( فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳)) ترجمۂ کنز العرفان : اے لوگو! اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو۔ [9] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
لیکن بلاضرورت ایسے فُضول سوالات کرنے سے بچنا چاہئے جن کا تعلق نہ تو عقیدے سے ہو اور نہ ہی عمل سے۔
غیر ضروری اور فضول سوالات کرنے والے کی نیت اگر علمائے کرام سے بحث مباحثہ کرنے ، سوالات کے ذریعے علم حاصل کرکے عوام کو پریشان کرنے اور شہرت حاصل کرنے کی ہو تو اسے اس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر غور کرکے ڈرنا چاہئے :
جو اس لئے علم طلب کرے تاکہ اس کے ذریعے علما سے مقابلہ کرے ، جاہلوں سے جھگڑے یا لوگوں کی توجہ حاصل کرے تو اللہ پاک اسے دوزخ میں داخل فرمائے گا۔ [10]
مفتی احمد یا ر خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : جو (شخص) دینی علم دین کے لئے نہ سیکھے بلکہ عزت یا مال حاصل کرنے یا دین میں فساد پھیلانے کے لئے سیکھے تو(وہ) اوّل درجہ کا جہنمی ہے۔ [11]
غیر ضروری سوالات کی مثالیں :
خاتَمُ المُحَقِّقِیْن حضرت علّامہ سیّد محمد امین ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : انسان کو چاہئے کہ اس چیز کے بارے میں سوال نہ کرے جس کی اسے ضرورت نہیں ، مثلاً :
حضرت سیّدُنا جبریلِ امین علیہ الصّلوٰۃ والسّلام زمین پر کس طرح اترتے تھے اور سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں کس صورت میں دیکھتے تھے؟حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب انہیں بَشری صورت میں دیکھتے تھے اس وقت وہ فرشتے ہوتے تھے یا نہیں؟ اور اسی طرح کی دیگر باتیں جن کا جاننا ضروری نہیں ہے اور شریعت نے ہمیں ان باتوں کا علم حاصل کرنے کا پابند نہیں بنایا۔ [12]
شارحِ بخاری مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فضول سوالات کی مثال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وہ باتیں جن کے جاننے کے ہم مُکَلَّف(یعنی پابند) نہیں ، جیسے : حضرت آدم ( علیہ السّلام ) نے جنّت میں سب سے پہلے کیا کھایا تھا؟ دنیا میں آکر سب سے پہلے کیا کھایا؟ حضرت حوا ( رضی اللہُ عنہا ) سے (آپ کی) ملاقات ہوئی تو پہلی گفتگو کیا ہوئی؟ حضرت اسماعیل ( علیہ السّلام ) کے فدیے کے گوشت کا کیا ہوا؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ (سوالات) ممنوع ہیں اور اسی کثرتِ سوالات میں داخل ہیں۔ [13]
ایک مقام پر شارحِ بخاری فرشتوں کی داڑھی سے متعلق سوال کرنے والے کو سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں : ہم اس کے مُکَلَّف (یعنی پابند) نہیں کہ یہ بھی ایمان رکھیں کہ فرشتوں کی کیا شکل ہے؟ انہیں داڑھی ہے یا نہیں؟ اس لیے اس کے کُرید (یعنی جستجو) میں رہنا ، نامناسب ہے۔ [14]
اے ہمارے پیارے پیارے اللہ کریم! ہمیں اس حدیثِ پاک میں بیان کردہ تینوں باتوں سے مکمل طور پر بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
[1] بخاری ، 1 / 498 ، حدیث : 1477
[2] فتح الباری ، 12 / 260
[3] لمعات التنقیح ، 8 / 210
[4] حلیۃ الاولیاء ، 3 / 88 ، رقم : 3278
[5] نزہۃ القاری ، 2 / 959 تسہیلاً
[6] نزہۃ القاری ، 2 / 959مفہوماً
[7] بخاری ، 1 / 497 ، حدیث : 1474
[8] بہار شریعت ، 1 / 941
[9] پ14 ، النحل : 43
[10] ترمذی ، 4 / 297 ، حدیث : 2663
[11] مراٰۃ المناجیح ، 1 / 204
[12] ردالمحتار ، 10 / 520 ملخصاً
[13] نزہۃ القاری ، 2 / 959تسہیلاً
[14] فتاویٰ شارح بخاری ، 1 / 663
Comments