صلحِ حُدَیْبِیَہ کے موقع پر صحابہ کرام کا عشقِ رسول
* مولانا محمد عطاء النبی حسینی مصباحی
ماہنامہ جون 2021
دینِ اسلام میں عشق و آدابِ رسالتِ مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کتنی اہمیت ہے کہ آپ تاریخِ اسلام کا وَرْق ورق پلٹتے جائیں آپ کو عشق و محبتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے واقعات اس قدر خوشبوئیں بکھیرتے ملیں گے جن سے مشامِ جاں معطر ہو جاتے ہیں اور احترام و آدابِ رسالت مآب کی داستانیں اس قدر جلوہ ریز ہیں جن سے ایمان و عقیدہ روشن و تابناک ہوجاتا ہے۔ صرف صلحِ حُدَیبِیہ اور بَیعتِ رضوان کا ہی واقعہ حاشیۂ ذہن و فکر میں لائیں تو یہی ایک واقعہ اُلفت و محبت اور آدابِ رسولِ مقبول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نقوش جان و دل اور ایمان و عقیدہ میں مزید پختگی پیدا کر دینے کے لئے کافی و وافی ہے۔
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بغیر طوافِ کعبہ نہیں کیا : ذرا دیکھئے تو سہی کہ طوافِ خانۂ کعبہ کس کو عزیز نہیں ، شاید کوئی مسلمان ہو جس کے دل میں اس سعادت سے بہرہ ور ہونے کی خواہش نہ ہو اور شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کو اس شرف سے مشرف ہونے کا موقع ملے اور وہ اس موقع کو غنیمت نہ جانے لیکن قربان جائیے ذُوالنُّورَین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کی محبتِ رسول پر کہ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مقامِ حدیبیہ میں پہنچ کر حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کو مکۂ مکرمہ میں کفار کے پاس صلح کا پیغام دے کر بھیجا تو کفارِ مکہ نے آپ سے جو کہا اور آپ نے جو جواب دیا اس پر رَشک کو بھی رَشک آتا ہے۔ علّامہ عبدُ المصطفیٰ اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : “ حضرت عثمان رضی اللہُ عنہ اپنی مالداری اور اپنے قبیلہ والوں کی حمایت و پاسداری کی وجہ سے کفارِ قریش کی نگاہوں میں بہت زیادہ معزز تھے۔ اس لئے کفارِ قریش ان پر کوئی دراز دستی نہیں کر سکے بلکہ ان سے یہ کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ کعبہ کا طواف اور صَفا و مَروہ کی سَعی کرکے اپنا عمرہ ادا کرلیں مگر ہم محمد ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کو کبھی ہرگز ہرگز کعبہ کے قریب نہ آنے دیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہُ عنہ نے انکار کردیا اور کہا : میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بغیر کبھی ہرگز ہرگز عمرہ نہیں ادا کر سکتا۔ “ [1]
اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بے ادبی ناقابلِ برداشت : حُدَیبِیہ کے میدان میں ایک ایسا بھی موقع آیا کہ کفارِ مکہ کی جانب سے صلح کا نمائندہ بن کر آنے والا شخص اپنے کو سب سے بڑا آدمی سمجھتا تھا۔ اس لئے جب بھی وہ حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کوئی بات کہتا تو ہاتھ بڑھا کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ریش مبارک پکڑ لیتا تھا اور بار بار آپ کی مقدس داڑھی پر ہاتھ ڈالتا تھا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہُ عنہ جو ننگی تلوار لے کر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے کھڑے تھے۔ وہ اس جرأت اور حرکت کو برداشت نہ کرسکے۔ وہ تلوار کا قبضہ اس کے ہاتھ پر مار کر اس سے کہتے کہ ریش مبارک سے اپنا ہاتھ ہٹا لے۔ “ [2]
عشق ہو تو ایسا : صلحِ حدیبیہ کے موقع پر صحابۂ کرام نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ محبت و الفت اور ادب و احترام کی وہ مثالیں پیش کیں جو چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھیں۔ جی ہاں! ہوا ہی کچھ ایسا اور اس کا مشاہدہ خود کفار کے ایلچی عُروہ بن مسعود نے بھی کیا اور واپسی کے بعد کفار میں اس کا چرچا بھی کیا ذرا آپ بھی اس اندازِ عشق کو پڑھئے اور جھوم جائیے :
“ اے میری قوم!خدا کی قسم!جب محمد( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) اپنا لعاب ڈالتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی میں پڑتا ہے اور وہ فرطِ عقیدت سے اس کو اپنے چہرے اور اپنی کھال پر مَل لیتا ہے۔ اور اگر وہ کسی بات کا ان لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو سب کے سب اس کی تعمیل کے لئے جلدی کرتے ہیں اور وہ جب وُضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب ان کے وُضو کے دھووَن کو لوٹنے میں ایک دوسرے سے جلدی کرتے ہیں اور وہ جب کوئی گفتگو کرتے ہیں تو تمام اصحاب خاموش ہوجاتے ہیں۔ اور ان کے ساتھیوں کے دِلوں میں ان کی اتنی زبردست عظمت ہے کہ کوئی شخص ان کی طرف نظر بھر دیکھ نہیں سکتا۔ “ [3]
آپ کا نام کبھی نہیں مٹاؤں گا : صلح حدیبیہ کے موقع پر محبتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ نمونہ بھی کس قدر بے مثال ہے کہ جب باہم شرائط طے پاگئیں اور صلح نامہ لکھنے کی نوبت آئی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ عبارت لکھوائی۔ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ یعنی یہ وہ شرائط ہیں جن پر مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّه صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صلح کا فیصلہ کیا۔ تو کفارِ مکہ کی جانب سے صلح کا نمائندہ بن کر آنے والا شخص بھڑک گیا اور کہنے لگا کہ خدا کی قسم!اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو نہ ہم آپ کو بیتُ اللہ سے روکتے نہ آپ کے ساتھ جنگ کرتے لیکن آپ “ محمد بن عبدُاللہ “ لکھئے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : خدا کی قسم! میں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّه بھی ہوں اور محمد بن عبدُاللہ بھی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ تم لوگ میری رسالت کو جھٹلاتے ہو۔ یہ کہہ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے فرمایا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّه کی جگہ محمد بن عبداللہ لکھ دو۔ حضرت علی رضی اللہُ عنہ نے عرض کیا کہ یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میں آپ کے نام کو تو کبھی ہرگز ہرگز نہیں مٹاؤں گا۔ یہ سُن کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اپنے دستِ مبارک سے نام تبدیل فرما دیا۔ “ [4]
یہ تو تاریخِ اسلام کا صرف ایک واقعہ ہے جس میں عشق و ادبِ رسولِ مقبول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ایسے ایسے جلوے ہیں کہ دنیا نے نہ کبھی ایسے جلوے دیکھے ہوں گے اور نہ کبھی دیکھ پائے گی ورنہ تاریخِ اسلام کا مطالعہ کرنے والوں پر پوشیدہ نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے عشق و محبت اور ادب و احترام کے ایسے ایسے اَنْمِٹ نقوش چھوڑے ہیں جو دعوتِ نظارہ اور دعوتِ مطالعہ دے رہے ہیں۔ اللہ پاک ہم مسلمانوں کو بھی سچا عشقِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نصیب فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* مُدرِّس جامعۃُ المدینہ فیضانِ رضا ، بریلی شریف ہند
[1] شرح الزرقانی علی المواھب ، 3 / 222 ، سیرتِ مصطفیٰ ، ص 348
[2] ماخوذ از بخاری ، 2 / 223 ، حدیث : 2731 ، 2732 ، مدارج النبوۃ ، 2 / 206 ، سیرتِ مصطفیٰ ، ص351 ، 352
[3] بخاری ، 2 / 223 ، حدیث : 2731 ، 2732 ، الکامل فی التاریخ ، 2 / 88 ، سیرتِ مصطفیٰ ، ص352 ، 353
[4] بخاری ، 2 / 223 ، حدیث : 2731 ، 2732 ، الکامل فی التاریخ ، 2 / 89 ، 90
Comments