حدیثِ قدسی

العلم نور

حدیثِ قدسی

* مولانا  ابو محمد عطاری مدنی

ماہنامہ جون 2021

پیارے طلبۂ کرام! حدیثِ قدسی کسے کہتے ہیں؟ قراٰنِ کریم اور حدیثِ قدسی میں کیا فرق ہے؟ حدیثِ نبوی اور حدیثِ قدسی میں کیا فرق ہے؟ احادیثِ قدسیہ کی تعداد کتنی ہے؟ یہ سب جاننے کے لئے اس مضمون کا مطالعہ فرمائیے اِنْ شَآءَ اللہ مفید معلومات حاصل ہوں گی۔

حدیثِ قدسی کسے کہتے ہیں؟

 حدیثِ قدسی وہ حدیث ہے جس کے راوی (بیان کرنے والے) نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہوں اور اس کی نسبت اللہ پاک کی طرف ہو۔ [1]  مثلاً اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا کہ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے : اَنْفِقْ يَا ابْنَ آدَمَ اُنْفِقْ عَلَيْكَ یعنی اے ابنِ آدم! خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا۔ [2]

قراٰنِ کریم اور حدیثِ قدسی میں فرق :

 قراٰنِ کریم اور حدیثِ قدسی میں چند طرح سے فرق کیا جاتا ہے :

 (1)قراٰنِ کریم کے الفاظ اور معانی اللہ کریم کی طرف سے ہوتے ہیں جنہیں رسول کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے لوگوں تک پہنچایا ، جبکہ حدیثِ قدسی میں معانی اللہ پاک کی طرف سے ہوتے ہیں اور الفاظ نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ہوتے ہیں ۔

(2)قراٰنِ کریم تَواتُر کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے لیکن احادیثِ قدسیہ میں خبرِ واحِد وغیرہ بھی شامل ہیں۔

(3)قراٰنِ کریم کی تلاوت کرنا عبادت ہے کہ ہر حرف کے بدلے 10نیکیاں ہیں جبکہ حدیثِ قدسی کی تلاوت کرنا عبادت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ہر حرف کے بدلے10نیکیاں ہیں۔ [3]

(4)قراٰنِ کریم کی روایت بالمعنیٰ جائز نہیں ہے کیونکہ اس کے الفاظ و معانی کی تلاوت کرنا عبادت ہے ، جبکہ حدیثِ قدسی اور حدیثِ نبوی کی روایت بِالمعنیٰ جائز ہے۔

 (5)نماز میں قراٰنِ کریم کی تلاوت کرنا ضروری ہے اگر نہیں کریں گے تو نماز نہیں ہوگی ، مگر نماز میں حدیثِ قدسی کی تلاوت نہیں کی جاتی ، اگر کوئی کرے گا تو اس کی نماز ہی نہیں ہوگی۔

 (6)احادیثِ قُدسیہ کو قراٰن کا نام نہیں دیا جاتا ۔

(7)قراٰنِ کریم میں آیات اور سورتوں کے نام ہیں جبکہ احادیثِ قدسیہ میں ایسا نہیں ہے۔

 (8)بے وُضو شخص کا قراٰنِ کریم چھونا حرام ہے لیکن بے وُضو شخص حدیثِ قدسی کو چھو سکتا ہے ، اسی طرح جس پر غسل فرض ہو اُسے قراٰنِ کریم کی تلاوت کرنا حرام ہے مگر ایسا شخص حدیثِ قدسی پڑھ سکتا ہے ۔

(9)پورا قراٰنِ کریم جبریلِ امین کے ذریعے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر نازِل ہوا ہے مگر حدیثِ قدسی جبریلِ امین ، الہام اور خواب کے ذریعے بیان فرمائی ہیں۔

 (10)قراٰنِ کریم کا انکار کرنے والا کافر ہے جبکہ حدیثِ قدسی کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہے۔ [4]

حدیثِ نبوی اور حدیثِ قدسی میں فرق :

 حدیثِ نبوی اور حدیثِ قدسی میں چند طرح سے فرق کیا جاتا ہے :

(1)حدیثِ نبوی نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے قول ، فعل اور کسی کام پر سکوت وغیرہ کے ساتھ خاص ہے جبکہ حدیثِ قدسی صرف قول کے ساتھ خاص ہے۔ [5]

(2)حدیثِ نبوی میں کلام و الفاظ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ہوتے ہیں جبکہ حدیثِ قدسی میں معانی اللہ پاک کی طرف سے ہوتے ہیں اور الفاظ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے۔ [6]

 (3)حدیثِ نبوی اور حدیثِ قدسی میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ حدیثِ قدسی میں ربِّ کریم کی طرف نسبت کی جاتی ہے اور اسی سے ہی روایت کی جاتی ہے جبکہ حدیثِ نبوی میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی طرف نسبت کرتے ہیں(یعنی یوں کہا جاتا ہے کہ نبی پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا)۔ [7]

احادیثِ قدسیہ کی تعداد :

 احادیثِ قدسیہ کی تعداد200 سے زائد ہے ، امام عبدالرّؤوف مناوی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے اپنی کتاب “ الاتحافات السنیۃ بالاحادیث القدسیۃ “ میں 272 احادیثِ قدسیہ جمع فرمائی ہیں۔ [8]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ



[1] تیسیر مصطلح الحدیث ، ص94

[2] بخاری ، 3 / 511 ، حدیث : 5352

[3] الفتح المبین بشرح الاربعین ، ص432 ، تیسیر مصطلح الحدیث ، ص94

[4] ماخوذاز الفتح المبین بشرح الاربعین ، ص432 ، الوسیط فی علوم ومصطلح الحدیث ، ص216 ، 217 ، احادیثِ قدسیہ ، ص18

[5] الاحادیث القدسیۃ الاربعینیۃ ، مقدمۃ المحقق ، ص27

[6] فیضانِ ریاض الصالحین ، 2 / 277 ، 278

[7] الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری ، 9 / 79

[8] تیسیر مصطلح الحدیث ، ص95


Share